سلام: اسلامی رشتے کی مضبوط ڈور

0

ڈاکٹرحافظ کرناٹکی

انسان فطرتاً مل جل کر رہنے کی خصلت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ تنہا زندگی گزارنا پسند نہیں کرتا ہے۔ مل جل کر رہنے سے ہی سماج اور معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اور پھر اسی میل جول اور ایک ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش کی بدولت انسان خاندان بناتا ہے۔ بہت سارے خاندانوں کے ملنے سے ایک سماج بنتا ہے۔ اور کبھی کبھی بہت سارے سماجوں کے ایک ساتھ رہنے سے ایک ملک ایک ریاست بنتی ہے۔ اور پھر اسی میل جول، محبت و مروّت اور رسم و رواج اور روایات کے احترام سے ایک معاشرہ بنتا ہے۔ لیکن ان سب کی بنیاد پڑتی ہے کم از کم دو انسانوں کے ملنے سے۔ اسلام میں صاف حکم دیاگیا ہے کہ جب کبھی کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو اس سے اپنے تعلق کا اظہارکرنے کے لیے خوش دلی سے کہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تو قرآن پاک میں فرمایاہے؛
’’اے نبی! جب آپ کے پاس وہ لوگ آتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہیے؛ السلام علیکم‘‘ (سورۃ الانعام)
اس آیت میں بظاہر حضورؐ کو ایمان لانے والوں کو سلام کرنے کو کہا گیا ہے، مگر بالواسطہ طور پر سارے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی اہل ایمان ایک دوسرے سے ملیں تو آپس میں سلام کریں۔ اس سے ایک دوسرے کے دلوں میں محبت اور مروّت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ آپسی لگاؤ اور پیار بڑھے گا اور اجنبیت و بیگانگی دور ہوگی۔ جب ایک مسلمان السلام علیکم کہے تو دوسرے پر لازم ہے کہ وہ وعلیکم السلام کہے، اس طرح دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے اپنائیت کے جذبات پیدا ہوں گے۔
اسلام نے سلام کرنے کا بھی طریقہ بتادیاہے۔ یعنی زبان سے نہایت خلوص، اپنائیت اور مسرت کے ساتھ السلام علیکم کہیں، اگر کوئی سامنے سے آرہا ہے تو بھی سلام کریں، اگر آپ کسی سے ملنے جارہے ہیں تو بھی سلام کریں، حد یہ ہے کہ اگر آپ کسی کو خط لکھ رہے ہیں تو بھی سلام کریں۔ سلام ہمیشہ اسلامی طریقے کے مطابق کریں۔ سماج اور معاشرے میں فیشن کے مطابق سلام کا جو طریقہ رائج ہو جائے اسے نہ اپنائیں۔ کسی دوسرے مذہب میں رائج سلام کے طریقے کو بھی نہ اپنائیں اور نہ غیر اسلامی طرز اور انداز اختیار کریں۔ کیوں کہ اسلام کا بتایا ہوا طریقہ نہایت سادہ اور بامعنیٰ ہے۔ اس میں بڑی جامعیت کے ساتھ سلامتی کی دعا کو سمودیا گیاہے۔ آپ جب بھی اپنے کسی دینی بھائی سے ملتے ہوئے اسے السلام علیکم کہتے ہیں تو گویا آپ اسے دعا دیتے ہیں کہ خدا تمہیں ہر طرح کی سلامتی اور عافیت سے نوازیأ
خدا تمہارے جان و مال، آبرو عزت اور وقار کو سلامت رکھے۔ تمہارے اہل وعیال اور گھربار کو سلامت رکھے۔ تمہارے دین و ایمان کو سلامت رکھے، تمہاری دنیا بھی سلامت رہے اور آخرت بھی سلامت رہے۔ خدا تمہیں ان سلامتیوں سے نوازے جو میرے علم میںہے اور ان سلامتیوں سے بھی نوازے جو میرے علم میں نہیں ہے۔
سلام کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنے بھائی سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں تمہارے لیے نہایت خیر خواہی کے جذبات ہیں، خلوص و محبت کی چاشنی ہے۔ میری طرف سے کبھی کوئی اندیشہ محسوس نہ کرنا، کیوں کہ میرے طرز عمل سے تمہیں کبھی کوئی دکھ نہیں پہونچے گا اور نہ میرے کسی عمل سے تمہیں کبھی کوئی نقصان ہوگا۔ سلام پر الف لام داخل کرکے یعنی ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر آپ اپنے مخاطب کے لیے سلامتی اور عافیت کی ساری دعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔ اب ذرا رک کر سوچیے کہ آپ یہ کلمات نہایت ذمہ داری، ہوش مندی، اور شعور کی بیداری کے ساتھ اپنی زبان سے نکالتے ہیں تو سامنے والے کے لیے اس سے بڑی اور بہترین دعا اور کیا ہوسکتی ہے۔اور یہ بھی غور فرمائیے کہ آپ جس کو سلام کر رہے ہیں وہ بھی اگر سلام کے سارے معانی سے اسی طرح واقف ہے اور اس کی اہمیت جانتا ہے اور اس کے مفاہیم سے آگاہ ہے تو اس خوب صورت اور جامع دعا سے کس قدر خوشی محسوس کرے گا۔ آپ جب بھی اپنے کسی بھائی کا السلام علیکم کہہ کر استقبال کرتے ہیں تو گویا آپ اس سے کہتے ہیں کہ آپ کو وہ ہستی سلامتی سے نوازے جو خیر و عافیت کا سرچشمہ ہے اور سراپا سلام ہے۔ جس کا نام ہی السلام ہے، ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے جوننانوے نام ہیں ان میں سے ایک نام السّلام بھی ہے۔ اور چوں کہ اللہ کا نام السلام ہے تو وہی سلامتی اور عافیت حاصل کرسکتا ہے جس کو وہ سلامت رکھے۔ جس کو وہ اپنی سلامتی سے محروم کردے گا اسے دنیا میں کوئی خیر و عافیت سے نہیں رکھ سکتا ہے۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ؛’’السّلام ‘‘خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جس کو خدا نے زمین میں زمین والوں کے لیے رکھ دیا ہے، پس السلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔‘‘
نیکی کرنے اور اچھی باتوں کا جواب دینے میں ہمیشہ فیاضی سے کام لینا چاہیے، تا کہ آپس میں محبت کی ڈور مضبوط سے مضبوط تر ہوسکے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ فرشتے جب مومنوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو آکر سب سے پہلے السلام علیکم کہتے ہیں؛فرمان الٰہی ہے’’ایسی ہی جزاء دیتا ہے خدا متقی لوگوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں، السلام علیکم جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ اپنے اعمال کے صلہ میں۔
گویا سلام اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے، کیوں کہ اسے صرف انسان ہی نہیں فرشتے بھی استعمال کرتے ہیں۔جنت میں بہت سارے دروازے ہیں، یہ متقی اور اللہ کے نیک بندے جنت میں داخل ہونے کے لیے جب جنت کے دروازے پر پہونچیں گے تو جنت کے ذمہ دار بھی انہی الفاظ کے ساتھ ان کا استقبال کریں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ؛’’اور جو لوگ پاکیزگی اورفرماں برداری کی زندگی گزارتے رہے ان کے گروہ جنت کی طرف روانہ کردیے جائیں گے اور جب وہ وہاں پہونچیں گے تو اس کے دروازے پہلے ہی سے ان کے استقبال میں کھلے ہوئے ہوں گے تو جنت کے ذمہ داران سے کہیں گے السلام علیکم بہت ہی اچھے رہے، داخل ہوجاؤاس جنت میں ہمیشہ کے لیے۔‘‘
(سورۃ الزمر )
اور جب اللہ کے یہ نیک اور برگزیدہ بندے جنہوں نے اپنی زندگی آخرت کو سنوارنے میں گزاری ہوگی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو فرشتے جنت کے ہر دروازے سے داخل ہو کر ان کو السلام علیکم کہیں گے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ؛’’اور فرشتے ہر دروازے سے اس کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے السلام علیکم یہ صلہ ہے تمہارے صبر و ثبات کی روش کا پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر۔‘‘ (سورۃ یونس ۱۰)
قرآن و سنت کی ان واضح بشارتوں اور شہادتوں سے صاف واضح ہے کہ سلام ایمان والوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کی سب سے مضبوط ڈور ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ وہ خدا اور رسول کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر اظہار محبت و مسرت کے لیے دوسرے طریقے کو اپنائے۔
سلام کو اپنے مسلمان بھائی کا حق سمجھئے، بلکہ اسے قرض مانیے، جب بھی جو بھی مسلمان بھائی ملے اسے سلام کا نذرانہ ضرور پیش کیجئے، سلام کرنے میں ہمیشہ فیاضی اور فراخ دلی کے ساتھ ساتھ جوش مسرت سے کام لیجئے۔ سلام مردہ دلی اور بے دلی سے کرنے میں وہ لطف نہیں آتا ہے جو چہکار اور اظہار مسرت کے ساتھ کرنے میں آتا ہے۔ یوں بھی نبیؐ نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب مسلمان بھائی سے ملے تو اس کو سلام کرے، حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔
سلام کرنے میں کبھی تکلف اور کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے، جس طرح یہ بات کہی گئی ہے کہ منافق مسجد سے جلد بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح سلام کے بارے میں حضورؐ نے بہت ہی پرلطف بات فرمائی ہے۔ حضور ؐ سے کسی نے پوچھا کہ جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملے تو ان دونوں میں سے کون پہلے سلام کرے؟ آپؐ نے فرمایا؛ ’’جو ان دونوں میں خدا کے نزدیک زیادہ بہتر ہو۔‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے وہ خدا کے نزدیک زیادہ بہتر انسان ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سناؤ اس لیے کہ سلام خدا کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دعا ہے۔ ویسے سلام کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے۔ پھر بھی آداب کے طور پر بتایا گیا ہے کہ چھوٹے اپنے بڑوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ چلنے والے بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرنے میں پہل کرے۔ اگر کوئی سواری سے چل رہا ہے تو وہ پیدل چلنے والوں کو سلام کرنے میں پہل کرے۔
ان ساری باتوں پر توجہ کریں گے تو اس میں یہ نکتہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اگر کوئی رئیس بہت مہنگی گاڑی سے جارہا ہے اور راستے میں اسے کوئی غریب، مسکین، یا پیدل چلنے والا انسان نظر آتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ جب یہ بڑا خوشحال انسان لوگوں کو سلام کرے گا تو ان کے دلوں میں اس کے لیے محبت پیدا ہوگی۔ اور اونچ نیچ کا تصوّر مٹ جائے گا۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ؛’’جب تم کسی مجلس میں پہونچو تو سلام کرو، اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگو تو پھر سلام کرو اور یاد رکھو کہ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ مستحق اجر نہیں ہے کہ جاتے وقت تو آپ سلام کا بڑا اہتمام کریں اور جب رخصت ہونے لگیں تو سلام نہ کریں اور رخصتی سلام کو کوئی اہمیت نہ دیں۔‘‘جماعت، گروہ، اور مجلس میں کسی خاص انسان کا نام لے کر سلام نہ کریں، پوری جماعت، گروہ اور مجلس کو سلام کریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبیؐ نے مجھ سے فرمایا عائشہؓ جبرئیل علیہ السلام تم کو سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اپنے کسی بزرگ، دوست، یاعزیز کو دوسرے کے ذریعے سلام کہلوایا جاسکتا ہے۔ اگر خط میں لکھنے کا موقع ہو تو اس میں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔(۱) سلام کا جواب دینا۔(۲) مریض کی عیادت کرنا۔(۳) جنازے کے ساتھ جانا۔(۴) دعوت قبول کرنا۔(۵) چھینک کا جواب دینا۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے سواری پر تھا ہم جن جن لوگوں کے پاس سے گزرتے ابوبکرؓ انہیں السلام علیکم کہتے اور وہ جواب دیتے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس پر ابوبکرؓ نے فرمایا آج تو لوگ فضیلت میں ہم سے بہت بڑھ گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی سلام کرے تو اس کا جواب نہایت خوش دلی اور خندہ پیشانی سے دینا چاہیے۔ ممکن ہو تو اس میں دعائیہ کلمات کا اضافہ بھی کرنا چاہیے۔ اس طرح آپسی تعلقات کی کشش میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسلامی شعار کو جو لوگ دل سے پسند کرتے اور اپناتے ہیں وہ بفضلہ تعالیٰ دین اور دنیا دونوں میں سرخ رو ہوتے ہیں۔ ہم سبھوں کو چاہیے کہ اسلامی رشتے کی اس مضبوط ڈور کو ہمیشہ تھامے رہیں اور جب بھی ایک دوسرے سے ملیں تو سلام کہہ کر اپنے رشتوں اور دلی جذبات کی تجدید وتوثیق کرتے رہیں۔ تاکہ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں کے عملی ثبوت بھی ملتے رہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS