عبدالماجد نظامی
آنجہانی سہارا شری سبرت رائے سہارا (1948-2023) کی شخصیت کی اتنی متنوع جہات ہیں کہ ایک قلمکار اپنی پسند کے مطابق الگ الگ پہلوؤں پر لکھ سکتا ہے اور ان پر ہزاروں نکات بیان کر سکتا ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہیں جنہوں نے ملک اور سماج کے اتنے پہلوؤں کو متاثر کیا ہو۔ قدرت نے ان میں صلاحیتوں کی ایک وسیع دنیا ودیعت کر دی تھی۔ وہ جو کچھ بھی سوچتے، اس کا کینواس اتنا بڑا اور اس کی جاذبیت اتنی مسحور کن ہوتی کہ عوام و خواص اس کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ صرف خواب دیکھنا ہی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان خوابوں کو تعبیر عطا کرنے کے لیے اپنی پوری قوت اور صلاحیت جھونک دیتے تھے اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک ان کے خوابوں کی حقیقی تصویر اتنی دلکش اور عظیم نہ ہوجائے کہ دیکھنے والوں کی نظر مبہوت ہوکر رہ جائے اور اس کے کرشمائی حسن کو خراج تہنیت پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ ثابت کرکے دکھایا کہ اگر صحیح جہت میں مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کے ساتھ جہد مسلسل سے کام لیا جائے تو ہر منزل آسان ہوسکتی ہے اور کوئی بھی مقصد ناقابل حصول نہیں رہ جاتا ہے۔ ان کی زندگی ہر عام و خاص انسان کے لیے ایک کھلی کتاب ہے جس کے متنوع اوراق سے اپنے مقاصد کی تکمیل میں مدد لی جا سکتی ہے۔ بہار جیسی غریب ریاست کے نہایت پسماندہ ضلع ارریہ میں پیدا ہونے والی اس شخصیت، جس نے گورکھپور کے گورنمنٹ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے اپنی تعلیم حاصل کی، نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ دنیا کے عظیم اور معروف اداروں، تعلیم گاہوں اور یونیورسٹیوں میں ہی تربیت حاصل کرنے کے بعد کوئی بڑی دنیا آباد کرنے کا اہل نہیں ہوتا ہے لیکن فکر میں اگر آسمان جیسی بلندی پائی جاتی ہو اور دلوں کو لبھا لینے اور انسانوں کو اپنی فکر پر قائل کرلینے کا فطری ہنر کسی شخص میں موجود ہو تو ایسا انسان معجزوں کی بھرمار کرسکتا ہے۔ یہ کوئی فلمی کہانی یا ناول کے پلاٹ کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی ناحقیقت بیانی کا عنصر پایا جاتا ہے بلکہ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنی فکری بلندی اور طالع آزمائی کے ذریعہ یہ کر دکھایا ہے۔ اس کا واضح ثبوت وہ کمپنیاں اور ادارے ہیں جو انہوں نے قائم کیے اور آج بھی پوری قوت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کی دل پذیری کا عالم یہ رہا ہے کہ جن لوگوں نے بھی ان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا، انہوں نے سبرت رائے جی کی جدائی کو قبول نہیں کیا اور پوری وفاداری و جاں سپاری کے ساتھ ان کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے اور آج بھی سہارا پریوار کا حصہ کسی نہ کسی حیثیت میں بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس ملک کے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو نوکریاں دی ہیں کہ ان کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ وہ انڈین ریلوے کے بعد اس ملک میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نوکریاں دینے والے انسان تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے امپائر کو ہر طرف وسعت دی۔ ہوائی جہاز سے لے کر ہوٹل تک، ٹیلی ویژن اور فلم سے لے کر کرکٹ کی جگمگاتی دنیا تک اور خوبصورت عمارتوں سے لے کر سنجیدہ فکر سیاست تک کوئی ایسا میدان نہیں چھوڑا جس پر انہوں نے اپنی گہری چھاپ نہ چھوڑی ہو۔ لیکن صحافت سے ان کا تعلق بہت خاص قسم کا تھا۔ چونکہ وہ فطری طور پر ایک وطن پرست انسان تھے اور اپنے ملک کی تہذیب کے تمام پہلوؤں سے نہ صرف محبت کرتے تھے بلکہ ان کو امتیازی مقام عطا کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے ملک کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں اردو اور ہندی کو صحافت کی ترقی کے لیے منتخب کیا۔ صحافت کی دنیا میں سہارا شری کے قدم رکھتے ہی ایک نئی قوت اور نیا جوش اس میدان میں پیدا ہوگیا۔ سہارا انڈیا کے نام سے جو سفر انہوں نے سہارا چینل، راشٹریہ سہارا ہندی اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نام سے شروع کیا تھا، وہ آج بھی پوری تابانی کے ساتھ رواں دواں ہے، یہ تو سب جانتے ہیں لیکن یہ بات نئی نسل میں سے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ نوے کی دہائی میں شروع ہونے والا سلسلہ کئی اعتبار سے دیگر تمام میڈیا گھرانوں سے ممتاز ہے۔ اس کی پہلی اور بنیادی امتیازی شان یہ ہے کہ سہارا شری نے اپنے میڈیا ہاؤس کے لیے اتنا شاندار کیمپس تیار کروایا اور اس کو ہر قسم کی سہولیات سے لیس کیا کہ آج بھی اس بلندی تک پہنچنا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ یہ پہلا میڈیا ہاؤس تھا جہاں پر کام کرنے والے لوگوں کو بہترین آفس اور کارپوریٹ سہولیات کے علاوہ شاندار کھانوں کے لیے ایک کینٹین مہیا کی گئی تھی جس میں پانچ روپے میں عمدہ کھانا نصیب ہوتا تھا۔ اردو زبان کی ترقی میں تو ان کا کارنامہ بطور خاص صدیوں یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے اردو صحافت کو اس وقت عزت اور وقار عطا کیا جب اس ملک میں نوے کی دہائی کے بعد سے فرقہ وارانہ ماحول کی وجہ سے اردو پر خاص طور سے شدید حملے کیے جا رہے تھے۔ ایسے دور میں انہوں نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کو ملک گیر پیمانہ پر شائع کرنے کا فیصلہ کیاجو بہترین صحافیوں، قلم کاروں، ادیبوں اور ارباب فکر کی رشحات کے لیے پہلی ترجیح قرار پایا۔ آج اردو تو کیا میڈیا کے پورے میدان میں بہت کم ایسے معروف نام ہوں گے جن کی وابستگی سہارا میڈیا ہاؤس کے ساتھ کسی نہ کسی نوعیت میں نہ رہی ہو۔ یہ سہارا شری کی وسعت قلبی اور علم دوستی کا ثبوت تھا کہ انہوں نے ان صلاحیتوں کو نہ صرف پلیٹ فارم عطا کیا بلکہ انہیں ان کا وہ مقام بھی عطا کیا جس کے وہ حق دار تھے۔ یہ بات بجا طور پر اور پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج ریختہ جیسی تنظیمیں بھی اسی وقار اور بلندی کی پیداوار ہیں جو سہارا پریوار نے اس کو عطا کیا ہے۔اردو زبان و تہذیب کو کارپوریٹ کے ساتھ ضم کرکے اس کے حسن کو نکھارنے میں جس ہاتھ نے سب سے کلیدی کردار ادا کیا، وہ سہارا شری سبرت رائے سہارا اور ان کے وفا شعار رفقاء کار کے قیمتی ہاتھ تھے۔ ان کی محنت اور اخلاص کا ہی نتیجہ تھا کہ آج یہ درخت اتنا تناور ہوچکا ہے کہ ہزار خراب موسموں کے باوجود اس میں تزلزل پیدا نہیں ہوتا اور پوری ہمت و حوصلہ کے ساتھ سماج اور دنیا کے ہر پہلو سے اپنے قارئین کو باخبر رکھتا ہے اور روز بروز اس کے حسن میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ سہارا انڈیا نے صحافت کو گھر گھر پہنچانے اور اردو کو ہردلعزیز بنانے کے لیے اپنے ہاکروں تک کا خیال رکھا اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف طرح کے انعامات دیے تاکہ ان کا شوق اور لگن برقرار رہے۔ کئی بار تو امتیازی خدمات ادا کرنے والوں کو سہارا انڈیا جہاز میں لکھنؤ بلا کر انعامات عطا کیے گئے۔ لکھنؤ شہر جس کو بجا طور پر ادب اور تہذیب کا شہر کہا جاتا ہے، اس نے سہارا شری کی زندگی اور ان کے کام کو بہت متاثر کیا۔ شاید اردو کے ساتھ ان کی گہری وابستگی میں شہر لکھنؤ کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہو۔ جس طرح لکھنؤ شہر نے انہیں بہت کچھ دیا، اسی طرح انہوں نے بھی اس شہر کو خوب سنوارا اور اپنی وراثت کا مرکز بنایا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ممبئی کی جادوئی نگری اور دلی کا دبستان بھی ان کی توجہات سے محروم نہیں رہا۔ اب اس وراثت کو سنبھالنے اور اس کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری صرف ان کے بچوں کی ہی نہیں بلکہ پورے سہارا پریوار سے جڑے ہوئے لوگوں کی ہے۔ اگر اس وراثت کو مزید ترقی دی گئی اور اس کو بکھرنے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اس کو نئی جہت عطا کی جاتی ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ان کے وفا شعاروں نے اپنا حق ادا کر دیا۔ انسان کا جسد خاکی ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کے کارنامے صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ سہارا شری کی یہ وراثت نہ صرف باقی رکھی جائے گی بلکہ اس کو نئے بال و پر بھی عطا کیے جائیں گے اور یہی سہارا شری جی کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]