عدالتی احکامات کی بے توقیری

0

بھارتیہ جنتاپارٹی نے ہندوستان کی سیاست کو وہ رخ دے دیا ہے جس کی ماضی میں کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ جارحانہ قوم پرستی، تشدد اور فرقہ وارانہ منافرت کی خباثت کو ملکی سیاست کی شہ رگ بناتے ہوئے مذہبی شدت پسندی کو عوام کی رگوں میں خون کی طرح دوڑانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔اس زعفرانی خیمہ میں شامل ایں قدراور آں قدر سبھی لیڈران کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے مذہبی شدت پسندی کو ابھارکر بھگوا پرچم لہرانا۔اس ہدف کے حصول کیلئے نیک و بد ہر طرح کی تمیز فراموش کردی گئی ہے۔اخلاقی اقدار طاق پر رکھ دیے گئے ہیں۔ آئین اور عدالتی احکامات کی پامالی بھی جائز ٹھہر چکی ہے۔ 56انچ کے سینہ والے ہوں یا پھر52گز کے عام بھگوا لیڈران سبھی ہدف و منزل کی جانب سرپٹ دوڑ رہے ہیں، انہیںیہ بھی پاس نہیں ہے کہ راہ میں کھڑے آئین ،قانون کی حکمرانی اور عدالتی احکامات بھی روندے جا رہے ہیں۔ایسے ہی52گزکے لیڈروں میں کپل مشرا بھی شامل ہیں جو عدالتی فرمان و احکامات اور قانونی انتباہات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے ہیں اور قانون شکنی کرنے والوں کی ستائش کرتے ہوئے ان پر فخر کا اظہار کررہے ہیں۔
دیوالی کی اگلی شب بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے دیوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑنے پر دہلی والوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پٹاخے آزادی اور جمہوریت کی آواز ہیں۔انہیں دہلی کے لوگوں پر فخر ہے،جنہوںنے سپریم کورٹ کے احکامات کو پرے رکھتے ہوئے مذہبی آزادی کا استعمال کیا اور دل کھول کر پٹاخے پھوڑے۔ دہلی میں پھوٹنے والے پٹاخے مزاحمت کی آواز، آزادی اور جمہوریت کی آواز ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر سائنسی، غیر منطقی اور آمرانہ پابندی کے خلاف دہلی کے عوام بہادری سے احتجاج کر رہے ہیں۔ دہلی کے سابق ایم ایل اے نے سٹے بازی کی پابندیوں کو بھی غیر معقول، غیر سائنسی اور من مانی ہدایات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کپل مشرا نے کالی پوجا اور دیوالی پر رات بھر پٹاخے جلانے اور پھوڑنے والوں کی تعریف کی اور مزید کہا کہ دہلی نے بہادری سے اس طرح کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے۔
دیوالی کی رات پٹاخوں سے نکلنے والی چنگاریوں نے تو صرف فضا اورماحول کو آلودہ کیا، لیکن کپل مشرا کے بیان سے نکلنے والی چنگاریوں نے قانون کی حکمرانی کا خیمہ ہی خاکستر کردیا۔ حکمراں جماعت کے ایک اہم رہنما کی یہ کھلی قانون شکنی چہار طرفہ مذمت ہی نہیں بلکہ واجب سزا ہے، لیکن کہیں سے احتجاج اور تنقید کی ایک ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔ باشعور سول سوسائٹی بھی اس معاملہ میں لب بستہ ہی رہی۔ لیکن ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے سامنے آئے اور دہلی کی فضائی آلودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ اور وزرا پر قومی دارالحکومت دہلی کی سڑکوں پر پٹاخے پھوڑنے کا الزام لگایا۔ سوشل میڈیا ہینڈل ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ لگاتار آتش بازی کیلئے دہلی (خاص طور پر بی جے پی ممبران پارلیمنٹ اور وزرا ) کا شکریہ۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ دارالحکومت میں صرف حکمراں جماعت کے رہنما ہی اس کی خلاف ورزی کررہے ہیں تو پابندی کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔
لفظ ’دیوالی‘ کا مطلب ہے روشنیوں کا جمع ہونا۔ اس تہوار کا مقصد چراغاں کر کے گردونواح کو منور کرنا ہے۔ وہ روشنی جو نہ صرف ظاہری فطرت کے اندھیرے کو دور کرتی ہے بلکہ ذہن تک بھی پہنچ کر دماغ کے اندھیرے کو دور کرتی ہے۔لیکن اس اندھیرے کو دور کرنے کیلئے جو پٹاخے اور آتش بازی بازار میں دستیاب ہیں، ان میں بارود اور دیگر مضر کیمیکلز شامل ہیں جن کی وجہ سے فضااور ماحول آلودہ ہوتا ہے اورا نسان کا سانس لینا بھی دوبھر ہوجاتا ہے۔ ماحولیاتی سائنسداں اور ماحولیاتی کارکن متعلقہ رپورٹس کے ساتھ بار بار متنبہ کرتے رہے ہیں۔ عدالت کی توجہ اس معاملے کی طرف مبذول کرائی گئی۔ شکایات کا جائزہ لینے کے بعد ملک کی مختلف عدالتوں نے حکومتی انتظامیہ کو کئی ہدایات دی ہیں۔ کچھ ریاستوں نے اس کی بنیاد پر کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بناپر حال ہی میں سپریم کورٹ نے دیوالی کے موقع پر استعمال ہونے والے پٹاخوں پر پابندی کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے پٹاخوں سے متعلق صنعتوں کے حقوق اور عوام کی صحت کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گرین پٹاخے اور آتش بازی کیلئے رات8بجے سے 10بجے تک کا وقت طے کیا تھا۔ انتظامی سطح پر سٹہ کھیلنے پر قانونی امتناع کو مزید سخت اور موثر کرنے کا اعلان بھی کیاگیا تھا۔ لیکن دہلی میں بی جے پی کے نائب صدرنے مذہبی روایت کی آڑ میں شدت پسندی کو ہوا دینے کیلئے آئینی اقدامات اور قانونی احکامات کی خلاف ورزی کو مزاحمت اور جمہوریت کی آواز قرار دے ڈالا۔قومی دارالحکومت دہلی میں آئین ،قانون اور سپریم کورٹ کے احکامات کی اس بے توقیری پر امت شاہ کی پولیس کا سرشرم سے جھک جانا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS