صبیح احمد: سیاسی جماعتوں کو نئی زمین کی تلاش!

0
image:DNA india

صبیح احمد

آئندہ عام انتخابات کے اب زیادہ دن نہیں رہ گئے ہیں۔ صرف ایک سال کا وقت بچا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی بساط بچھانی شروع کر دی ہے۔ ملک کی سب سے پرانی اور سب سے زیادہ دنوں تک حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت کانگریس جہاں اپنی کھوئی ہوئی پرانی زمین تلاش کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے، وہیں گزشتہ 8-9 برسوں سے برسراقتدار بی جے پی اپنے لیے نئی زمین تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آ رہی ہے۔ 2024 میں کس کے نصیب میں کیا ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال اس بات میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان میں 2014 سے برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت ملک کے سیاسی پس منظر کی سب سے طاقتور جماعت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس نے 2 عام انتخابات فیصلہ کن انداز میں جیتے ہیں اور اگرچہ اس نے کچھ ریاستیں کھوئی ہیں، لیکن مجموعی طور پر اس کی ہندوستان پر سیاسی گرفت مضبوط ہوتی رہی ہے۔ حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس کا کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آتا، ماضی کی طاقتور علاقائی جماعتیں اپنے سارے حربے آزما چکی ہیں اور نریندر مودی کے خلاف کوئی حقیقی چیلنج سامنے نہیں آیا ہے۔
بی جے پی وہ واحد جماعت ہے جس نے 1984 کے انتخابات میں کانگریس کی واضح کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ ملک کے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ اندرا گاندھی کے بعد نریندر مودی وہ واحد رہنما ہیں جو ملک بھر میں مقبول ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا مودی کی شخصیت، مذہبی سیاست اور سخت قوم پرستی کو جاتا ہے۔ بی جے پی کی کوشش رہتی ہے کہ وہ ہندوؤں کو متحد کر لے جو ہندوستان کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ ہیں اور وہ ایک ساتھ ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ذات پات کی بات نہیں کرتے جو کہ روایتی طور پر ہندوؤں کو منقسم کرنے کی وجہ تھی۔ اسی لیے وہ اسلام مخالف آواز اٹھاتے ہیں اور قدیم ہندو کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ بی جے پی کے اعلیٰ ترین رہنماؤں اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی کے درمیان تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کیسے واجپئی اور ان کی کابینہ کے کچھ لوگ مودی کے گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف فسادات کے بعد وزیراعلیٰ رہنے کے خلاف تھے۔ ان مسائل کے دوران بھی پارٹی متحد رہی۔ وہ ایک ایسی فیملی کی طرح ہے جو ایک دوسرے سے ناراض ہو کر بھی ایک ساتھ ہی رہتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت عموماً مفادات کا اتحاد ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ ایک ہی سمت نہیں ہوتے۔ انہیں کرشماتی شخصیت والے رہنما اکٹھا رکھتے ہیں، کچھ نظریات جوڑتے ہیں، تنظیمی ڈھانچہ کارآمد ہوتا ہے اور ہندوستان میں ذات بھی اتحاد کا ایک اہم فیکٹر ہے۔ مگر تفریق رائے یا پارٹی کے اندر کشیدگی ایک عام سی بات ہے۔ ہندوستان کی پارٹیاں لیڈروں کی انا کے مقابلوں اور گروپ بندیوں کی وجہ سے تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ کئی رہنما کانگریس سے علیحدہ ہو کر کامیاب علاقائی جماعتیں بنا چکے ہیں لیکن ابھی تک بی جے پی میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ پہلے واجپئی اور اڈوانی اور اب مودی اور امت شاہ کی قیادت اور آر ایس ایس کی حمایت نے اسے جوڑے رکھا ہے۔ دراصل بی جے پی ایک انتہائی نظریاتی جماعت ہے اور نظریاتی گوند اسے جوڑ کر رکھتی ہے۔ تو کیا بی جے پی ہمیشہ اکٹھی رہے گی؟ اس نے اپنی ’جارحانہ اور بے رحم‘ سیاست کے تحت اپنے دروازے دوسری جماعتوں کے اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے، جن میں سے کئی داغدار بھی ہوتے ہیں، کھول رکھے ہیں۔ یہ نظریاتی پاکیزگی کے ناگزیر تضادات کی طرف لے جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخرکب تک تضادات کو سنبھال کر رکھا جا سکتا ہے؟ یقینا اس وقت تک جب تک پارٹی جیت رہی ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی کی بقا کے لیے انتخابات بہت ضروری ہیں۔ اس میں دورائے نہیں ہے کہ بی جے پی کی سماجی بنیاد پھیل رہی ہے لیکن اس کی قیادت اب بھی زیادہ تر اونچی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک تضاد ہے جس کا سامنا مستقبل میں پارٹی کو کرنا پڑسکتا ہے۔
بی جے پی کی اکثریت پسندی کی سیاست اب اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ مذہبی بنیاد پر اکثریتی طبقہ کو متحد کرکے وہ گزشتہ 10سالوں سے اقتدار پر قابض رہی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد جہاں ملک کے نظام پر حکمراں طبقہ کا دبدبہ قائم ہو جاتا ہے، وہیں دوسری جانب ان کے اندر موجود منفی و مثبت تمام پہلو طشت از بام ہو جاتے ہیں۔ سیاہ و سفید عام لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ پھر اس کی مقبولیت کا صحیح اندازہ لگتا ہے۔ بی جے پی کو اکثریتی طبقہ کی جتنی حمایت ملنی تھی، وہ مل چکی ہے، اس سے زیادہ شاید ہی کچھ اور ملے۔ اس بات کا اندازہ اسے بھی ہوگیا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ اس کی مقبولیت میں اضافہ کے بجائے اب اس کے ووٹ بینک میں سیندھ بھی لگ سکتی ہے۔ کیونکہ کانگریس نے اب نئے دم خم اور نئی حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ جہاں تک ووٹ شیئر کا معاملہ ہے، اب بھی کانگریس کی پوزیشن اتنی بری نہیں ہوئی ہے کہ وہ احیا نہیں کرسکے۔ کانگریس اپنے ماضی کو دہرانے کے لیے جی توڑ کوششیں کر رہی ہے اور اگر کانگریس کو تھوڑا بھی فائدہ ہوا تو اس کا سیدھا نقصان بی جے پی کو ہی ہونے والا ہے۔ موجودہ مذہبی سیاست کی بنیاد پر بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ کا فی الحال دور دور تک امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ شاید اسی خطرے کے پیش نظر بی جے پی اب سنجیدگی سے نئی زمین کی تلاش میں لگ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر جہاں کانگریس کو اپنے احیا کے لیے مسلمانوں کے ووٹوں کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے، وہیں بی جے پی کو بھی آنے والے خطرے سے نمٹنے کی تیاریوں کے تحت مسلمانوں کی پسماندگی کا اتنی ہی شدت سے احساس ستانے لگا ہے۔
آج کل ’پسماندہ مسلمان‘ یا ’دلت مسلمان‘ جیسی اصطلاحوں کو کثرت سے استعمال کیا جا نے لگا ہے۔ ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں کی نہ صرف ان پر نظر ہے بلکہ اس سلسلے میں ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کی 1.4 ارب آبادی میں تقریباً 15 فیصد مسلمان ہیں۔ یہ اعداد و شمار آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ملک کی ہر سیاسی جماعت کے لیے اہم ہیں، بشمول بی جے پی کے جو مرکز میں مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کی کوشش کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی بھی اب مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کے ووٹ بینک کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مبینہ ہندو بنیاد پرستی پر مبنی سیاست کی وجہ سے مسلمان شاید ہی بی جے پی کی کھلے عام حمایت کرنے کے لیے آگے آئیں، اس لیے بی جے پی نے ایک نئی ترکیب وضع کی ہے اور وہ یہ ہے کہ برسوں سے پسماندگی میں مبتلا مسلمانوں کی اکثریت کو مسلمان اشرفیہ طبقہ کے ایک چھوٹے سے گروپ کے خلاف ورغلا کر مسلم اکثریتی طبقہ کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت بی جے پی آج کل ’پسماندہ مسلمان‘ طبقہ کی خیر خواہی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ایک اہم سیاسی فیصلہ ہو سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS