روس-یوکرین جنگ

0

دنیا کے اہم مردم خیز خطے تہذیب و ثقافت کے مرکز خرسون میں جو کہ یوکرین کا حصہ ہے اور اب روس کے قبضہ میں ہے ایک ڈیم کو نشانہ بنایا گیا۔ اس ڈیم کے انہدام کو لے کر یوکرین اور روس ایک دوسرے پر نکتہ چینی کررہے ہیں اوراس انہدام کے لیے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری جنگ میں ہزاروں افراد کی موت ہوچکی ہے اور روس کی جارحیت کی وجہ سے ایک امن پسند ملک بدترین صورت حال سے گزر رہا ہے۔ خرسون کے ڈیم کا انہدام اپنی نوعیت کا کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے گزشتہ ڈیڑھ سال کی مختصر مگر دلخراش تاریخ میں اس پورے خطہ کو بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
جنگ کی ابتدا میں ایسا لگ رہا تھا کہ روس کی جارحیت اس قدر طویل نہیں ہوگی اور روس صرف یوکرین کو ناٹو کی ممبرشپ اختیار کرنے سے باز رکھنے اور اس کو سبق سکھانے کی کوشش کررہا ہے مگر حالات ہر روز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ روس کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ جس طرح اس نے کریمیا پر حملہ کرکے چاروں طرف سے سمندر سے گھرے ہوئے اور فوجی اہمیت کے حامل اس جزیرہ نما کو بآسانی اپنی سلطنت میں ملا لیا تھا،اس طرح یوکرین میں اپنے مقاصد اور اہداف حاصل کرے گا، مگر اب یوکرین پر حملہ اس کو مہنگا پڑرہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ناٹو ممالک کی پوری حمایت اور مدد کے باوجود یوکرین کو روس کی جارحیت سے بچایا نہیں جاسکا ہے۔ روس لگاتار یوکرین کے اندر پیش قدمی کررہا ہے۔ خرسون کے نووا کا خووکا ڈیم کا انہدام اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ تصادم جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ڈیم پر بم باری اور پل کے انہدام کے بعد یوکرین کے کئی علاقوں میں سیلاب آگیا ہے اور یوکرین کے عوام اس کی زد میں آگئے ہیں۔ یہ بھی الزامات ہیں کہ روسی سیلاب زدہ علاقوں میں بچاؤ کے کام کرنے والے افراد اور متاثرین کو ہی نشانہ بنارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں روس کی سرزمین اور راجدھانی پر ڈرون حملہ کے بعد روس کے صدر ولادیمیرپوتن کے جارحانہ تیور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے یوکرین پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان کی سرزمین پر دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دے رہا ہے جب کہ پوری دنیا اور بطور خاص امریکہ روس کو جارحیت سے باز رکھنے اور بین الاقوامی سطح پر روس کو الگ تھلگ کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے مگر مغربی طاقتیں بطور خاص ناٹو ممالک روس کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرکے اس کو سیاسی اور اقتصادی سطح پر کمزور کرنے میں ناکام ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ روس یا چین کو محدود کردیں اور عالمی سیاست میں ان کے رول کو سمیٹ دیں۔ روس کے علاوہ چین نے بھی مغربی ممالک بطور خاص امریکہ کے لیے کئی مشکلات پیدا کی ہیں۔ امریکہ کے روایتی حلقہ ہائے اثر میں روس کے ساتھ چین نے بھی اپنی پکڑ مضبوط کرلی ہے۔ مغربی ایشیا میں اس نے دواہم کٹر حریف طاقتوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کراکے ناممکن کو ممکن بنادیا ہے۔ چین کی اس کامیابی کے بعد پوری دنیا میں امریکہ کی سفارتی سرگرمیوں کو لے کر اب آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں اور کئی ممالک دبے الفاظ اور کچھ برملا طور پر اس بات کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ بین الاقوامی سیاست میں امریکہ کا رول سمٹتا جارہا ہے۔ امریکہ کے ناقدین اس صورت حال کے لیے خود امریکہ کی جانبدارانہ اور غیرمنصفانہ حکمت عملی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ بہرحال خرسون میں یہ صورتحال یوروپ کے اندر ہنگامی صورت حال کے بڑھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کئی ممالک اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے حالات اس مقام پر آچکے ہیں کہ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو جان بوجھ کر بھڑکایا جارہا ہے جس میں یوکرین کو بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہورہا ہے۔ یہ جنگ مکمل طور پر یوکرین کی سرزمین پر لڑی جارہی ہے اور یوکرین کا عام شہری رہائشی علاقے اس کا براہ راست نشانہ بن رہے ہیں۔ اگرچہ پوری دنیا اس تنازع کو ختم کرنے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے، مگر کم ازکم یہ کوشش تو کی جاسکتی ہے کہ یہ جنگ مزید شدت اختیار نہ کرے۔ امریکہ اور ناٹو ممالک نے اگرچہ مظلوم یوکرین کا ساتھ دیا ہے جو کسی حد تک ٹھیک بھی ہے مگر اس تنازع کو جنگ کے ذریعہ حل کیا جانا فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب امریکہ نے یوکرین کو ایف-16طیارے دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔اس سے بڑی فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ان طیاروں میں نیوکلیئر ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی موجود ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ صورت حال واقعی خطرناک ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS