آسام : بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد

0
آسام : بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد

شمال مشرقی خطے کی ایک اہم صوبے آسا م میں اپوزیشن نے حکمراں بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دو میقات سے آسام میں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ وہ صوبہ ہے جہاں پر مسلمانوں پر تناسب سب سے زیادہ ہے۔ فرقہ وارانہ طور پر حساس اس خطے میں سب سے پہلے غیر ملکی گھس پیٹھیوں اور بنگلہ دیشی دراندازوں کا معاملہ سامنے آیا تھا اور یہ ریاست فرقہ وارانہ لسانی اور نسلی انتشار سے بہت متاثر ہے اور بی جے پی نے 2019کے الیکشن میں زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے آسام میں کانگریس کے اقتدار کو ختم کیا تھا۔ بی جے پی نے الیکشن بوڈو لینڈ پیپوپلز فرنٹ (بی پی ایف) اور آسام گن پریشد کے ساتھ الیکشن لڑا تھا۔ اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 34.2فیصد ہے۔
چند روز قبل 11اپوزیشن پارٹیوں نے 2024کے لیے متحدہ حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر موجود آسام جاتی پریشد کے صدر لورین جیوتی گگوئی نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ 2021اسمبلی الیکشن کے آسام کی اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے خلاف کوئی محاذ کھڑانہیں کرپائی تھیں اور اب ہم 2024کے الیکشن میں متحدہو کر بی جے پی کے حلاف لڑیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پارٹیوں نے آسام کی ایک اہم سیاسی جماعت آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)اس محاذ میں شامل نہیں کیا ہے۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ایک آئی یوڈی ایف بی جے پی کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور ریاست میں فرقہ وارانہ خطوط پر کام کررہی ہے جس سے بی جے پی کو فائدہ ہورہا ہے۔ اس محاذ میں کانگریس میں بھی شامل ہے۔ روایتی طور پر آسام میں کانگریس حکمراں رہی ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد کرکے ہم نے مرکزی قیادت کو یہ باور کرادیا ہے کہ وہ بدرالدین اجمل کے ساتھ کوئی تال میل نہیں رکھے گی۔ کیونکہ اس سے بی جے پی کو یہ کہنا کا موقع مل جائے گا کہ وہ مسلم فرقہ پرست پارٹی اے آئی ڈی ایف کے ساتھ تعاون کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگرچہ 11پارٹیوں کی اس محاذ میں یہ نہیں بتایا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں کون کتنی سیٹوں پر الیکشن لڑے گا۔ مگر اس محاذ میں بی جے پی کے سامنے ایک اہم چیلنج پیش کردیا ہے۔ بدرالدین اجمل کی پارٹی نے اپنے آپ کو اس محاذ میں شامل نہیں کیے جانے پر رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہاہے کہ یہ پارٹیاں بی جے پی کی ہاتھ میں کھیل رہی ہیں۔
پچھلے دنوں نئی دہلی اور ملک کے کئی صوبوں کی راجدھانیوں میںبی جے پی مخالف لیڈروں میں یہ بات نکل کر سامنے آئی تھی کہ اگر بی جے پی کو الیکشن میں ہرا نا ہے تو ہر سیٹ پر بی جے پی کے خلاف ایک متحد امیدوار کھڑا کرنا پڑے گا۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس بابت کہا تھا کہ 1977میں جے پی کی قیادت میں جو الیکشن لڑا گیا تھا اس میں بھی اپوزیشن نے اسی فارمولے کو اختیار کرکے کانگریس کی بالادستی کو چیلنج کیا تھا اس الیکشن اور دہلی میں مرار جی دیسائی کی قیادت میں ایک غیر کانگریسی اپوزیشن پارٹی کی حکومت معرض وجود میں آئی تھی۔ اپوزیشن کے سامنے یہ ایک اہم الیکشن ہے اور اپوزیشن پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اس مرتبہ بی جے پی کے خلاف ہر ریاست میں مقامی حالات کے مطابق ایک متحدہ حکمت عملی وضع کی جائے۔ آسام سے لوک سبھا کی 14سیٹیں ہیں مگر آسام میں شمالی مشرقی علاقوں کی ایک اہم مرکز ہے اور گرد ونواح 6 ریاستوں میں اس کے سیاسی رخ اور ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ آسام میں اس وقت بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواس سرما بی جے پی کے ایک اہم لیڈر بنے ہوئے ہیں اور آسام میں بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ آسام میں غیر ملکی اور جو بغیر کسی سند اور کاغذ کے رہنے والے غیر قانونی شہریوں کی نشاندہی کرکے ان کو الگ کیمپوں میں رکھنے کی حکمت عملی کا عملی نمونہ آسام میں ہی پیش کیا تھا۔ جہاں پر بڑی تعداد میں لوگوں کو قید میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے دنوں ہیمنت بسواس سرما نے اعلان کیاتھا کہ چار شادیوں کے خلاف قانون بنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کا ایجنڈہ بی جے پی کی واضح حکمت عملی ہے۔ وہ آسام میں مدارس کو بند کرانے کا اعلان کرچکے ہیں اور کئی مقامات پر وہ اپنے عزم مصمم کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ بی جے پی کی انتخابی مہم میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں اور کیونکہ وہ کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں اور راہل گاندھی سے خاص طور سے پرخاش رکھتے ہیں۔ انہوںنے اکثر مقامات اور مواقع پر راہل گاندھی کو پارٹی کے اندرونی معاملات پر گھیرنی کی کوشش کی ہے اوران کے بیانات میڈیا میں بھی بڑھا کر چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے لہجے کی ترشی کو مدنظررکھتے ہوئے کانگریس پارٹی نے اپنے روایتی انداز کو ترک کرکے مقامی اور یاستی سطح پر اپنی یونٹ کو چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ یہ حکمت عملی کرناٹک میں کامیاب ہے۔ کرناٹک میں راہل گاندھی یا گاندھی خاندان کی دیگر شخصیات نے اگرچہ انتخابی مہم میں اہم رول اداکیا ہے۔ مگر ریاست کے خاص مقامی ایشوز کو اور مقامی لیڈر شپ کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ تاکہ ووٹرس کو یہ باور کرایا جاسکے کہ کانگریس پارٹی مرکزیت نہیں بلکہ لا مرکزیت پر یقین رکھتی ہے اور ریاستی ایشوز کو قومی ایشوز سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ کانگریس کے صدر ملکا رجن کھڑگے کیونکہ خود کرناٹک کے ہیں لہٰذا ان کی شخصیت اثر کرناٹک پر زیادہ ظاہر رہا ہے مگر آسام ، مدھیہ پردیش، راجستھان، ودیگر ریاستوں میں کانگریس پارٹی کی مرکزی قیادت یا اعلیٰ کمان کوئی ایسا تاثر نہیں دینا چاہتی کہ وہ دہلی یا مرکز میں بیٹھ کر مقامی ریاست پر اپنے احکامات تھوپے۔ اگرچہ کرناٹک کے الیکشن میں سونیا گاندھی کی ایک تقریر کو بی جے پی نے کافی اچھالا تھا اس تقریر میں سونیا گاندھی نے کرناٹک کی اہمیت کو آگے رکھنے پر زور ڈالنے کے لیے کرناٹک کے اقتدار اعلیٰ کی بات کہہ کر ریاستی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ وہ صوبائی ایشوز اور صوبائی جذبات کلچر اور زبان کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ مگر بی جے پی نے انگریزی میں کی گئی اس تقریر میں ریاستی اسمتا کے بجائے اقتداراعلیٰ کے لفظ کا غلط استعمال کیا تھا جس پر کانگریس کے خلاف بی جے پی کا واویلا مچانا درست تھا۔ اصل مقصد ریاست کے ایشوز کو دیگر ایشوز کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینے کی بات ہوئی تھی۔ شاید کرناٹک میں کیے گئے مختلف تجربات کو کانگریس پارٹی آسام اور دوسری ریاستوں میں بھی استعمال کرنا چاہے گی۔ خاص طور پر بی جے پی کی وزیراعظم نریندر مودی کو آگے رکھنے اور ان کے نام پر الیکشن لڑنے کی حکمت عملی کا مقابلہ کرنا بھی وہ اسی طرح چاہتی ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی نے پوری کوشش کی کہ ریاست کا الیکشن وزیراعظم نریندر مودی کے نام کے ارد گرد مرکوز رہے۔ وزیراعظم نے کئی مرتبہ اس بابت خود بھی کوشش کی۔ مگر کانگریس کی قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم نے ہر موقع پر ان امور کو رد کرکے انتخابی مہم کا مرکز ومحور، کرپشن، بدانتظامی اور عوام کی اقتصادی مشکلات کو ہی رکھا۔ آسام میں یہ تجربہ کتنا کامیاب رہتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر جس منظم انداز میں آسام کی اپوزیشن پارٹیوں نے لوک سبھا الیکشن سے بہت پہلے اس محاذ کا اعلان کرکے ریاست میں لوک سبھا الیکشن کی تیاریو ںکا آغاز کردیاہے۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کو منفی پروپیگنڈے سے باز رہنے کے لیے بدرالدین اجمل کی پارٹی کو اس محاذسے الگ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اپوزیشن کا یہ محاذ فرقہ واریت کے الزام سے تو بچ جاتا ہے مگر ریاست میں بدرالدین اجمل کی پارٹی نے جس طرح اپنا سیاسی وسماجی تانا بانا بنا ہے۔ اس میں اتنی بڑی طاقت کو نظرانداز کرکے بی جے پی کو کس طرح ہرایا جائے گا۔ اس بابت حکمت عملی ابھی واضح نہیں ہوئی ہے۔ مگر اس صورت حال سے بدرالدین اجمل ضرور چراغ پا ہیں۔
2014کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے 14میں سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ کانگریس اور بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے تین تین ممبران پارلیمنٹ تھے۔ بی جے پی نے دواور پارٹیوں بوڈو لینڈ، پیوپلز فرنٹ اورآسام گن پریشد (اے جی پی)کو کسی بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی تھی۔
2019کے لوک سبھا الیکشن میں 14میں غیر معمولی 9سیٹوں ر بی ج پی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ بی جے پی نے تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی اس کی دونوں حلیف پارٹیاں اے جی پی اور بوڈو لینڈ پیوپلز فرنٹ (بی پی ایف)ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی تھیں۔ جبکہ کانگریس کو صرف 3سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اے آئی یو ڈی ایف کو ایک سینٹ اور آزاد امیدوار کو بھی ایک پا رلیمانی سیٹ پر امیدوار کامیاب کرانے میں کامیابی ملی تھی۔ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں این ڈی اے کو 64فیصد ، یو پی اے کو 22اور اے آئی یو ڈی ایف کو 7فیصد ووٹ ملا تھا۔
پچھلی مرتبہ اے آئی یو ڈی ایف نے کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا او رمبصرین کا کہنا تھا کہ اسی کی وجہ سے بی جے پی کو کانگریس اور مسلم مخالف ووٹ کو اپنے ساتھ لانے میں کامیابی ملی۔ کانگریس کے کئی لیڈر آسام میں بدرالدین اجمل کی پارٹی کے ساتھ الیکشن لڑنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان میں دگوجے سنگھ کا نام اہم ہے۔ کانگریس یوتھ کا کہنا ہے کہ اس سے فرقہ پرست ووٹ کمزور پڑا اور اپوزیشن کا یہ کہنے کا موقع ملا مسلم بنیاد پرست پارٹی کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔ اس دفعہ کانگریس کو جو اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے جو نقصان ہوا وہ غیر معمولی تھا۔ آسام کے تمام خطوں اپر آسام، سینٹرل آسام ، نارتھ آسام، لور آسام ، باراک اور ہلس ، بی ٹی آر اور کرم وغیرہ میں یہی صورت حال رہی۔ کانگریس مخالف ووٹ اس وجہ سے بڑھ گیا کہ اس کے ساتھ بدر الدین اجمل کی پارٹی کا تال میل تھا۔ اس مرتبہ بی جے پی کو شاید یہ کہنے کا موقع نہ ملے۔ اس مرتبہ یو ڈی ایف کو صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی اور بی جے پی کو اتنی زیادہ سیٹوں پر کامیابی ملنا کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس سے بی جے پی کو اپنی حلیف پارٹیوں کو بھی پچھاڑنے میں کامیابی ملی۔ اے جی پی اور بوڈو لینڈ پیپولز فرنٹ کو 14میں سے ایک بھی سیٹ کا نہ ملنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دونوں علاقائی پارٹیوں کو تو کم از کم ختم کردیا ہے۔ یہ صورت حال ان دونوں پارٹیوں کے لے اس لیے افسوسناک ہے کہ اے جی پی آسام کی بڑی سیاسی طاقت رہی ہے اور ایک زمانے میں مقامی اور غیر مقامی کی جنگ میں یہ آسام کی سیات میں اس پارٹی کو زبردست مقبولیت رہی ہے۔ راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں جو معاہدہ آسام میں تشدد کو ختم کرنے کے لیے کیاگیا تھا۔ آسام گن پریشد اس میں دستخط کرنے والی فریق پارٹی تھی۔ اس معاہدے کے بعد آسام میں جو حکومت بنی تھی وہ آسام گن پریشد کی بنی تھی۔ ظاہر ہے کہ نارتھ ایسٹ کی اس اہم سیاسی جماعت کا منظر عام سے غائب ہوجانا ان تمام طبقات کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ علاقائی زبان وکلچر کی اہمیت کو برقرار کھنے کے لیے منظر پر رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح بوڈو لینڈ پیپولز پارٹی کا 2019کے لوک سبھا کے الیکشن میں غائب رہنا بھی یہی پیغام پہنچا تا ہے۔ 2021کے اسمبلی کے الیکشن میں آسام گن پریشد نے 11سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا جس میں سے اس کو 9پر کامیابی ملی تھی جبکہ بوڈو لینڈ پارٹی نے 16سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے اور اس کے 12امیدوار الیکشن جیتے تھے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت بی جے پی کو حاصل ہوئی۔ یعنی بی جے پی نے علاقائی پارٹی پر سبقت حاصل کرے اپنی اہمیت اس خطے میں واضح کردی ہے۔ یہ دیگر علاقائی پارٹیوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ قومی پارٹیاں اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے علاقائی پارٹیوں پر سبقت حاصل کرلیتی ہے۔ کانگریس پارٹی اس مرتبہ مقامی آبادی یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ آسام میں مقامی ایشوز اور لیڈر ہی اہم ہوں گے۔ یہ حکمت عملی کانگریس کی مودی سینٹرک ایپروچ سے بالکل مختلف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 2024کے الیکشن میں آسام میں عوام کیا موجودہ نامولود بی جے پی اور این ڈی اے مخالف محاذ کے ایجنڈے کو اہمیت دیتے ہیں جوکہ قومی ایشوز پر زیادہ زور ڈالتا ہے یا مقامی مسائل اور مقامی لیڈروں کو اپنا ووٹ دیتے ہیں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS