دنیا کو 2023میں معاشی کساد بازاری کاکرنا پڑسکتا ہے سامناv ورلڈ بینک کی وارننگ

0

نئی دہلی (ایجنسیاں) : سال 2023 میں دنیا کو معاشی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اس حوالے سے وارننگ جاری کی ہے۔ اس کی وجہ دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی محدود اقتصادی پالیسیاں بتائی جاتی ہیں۔ عالمی بینک نے اپنی نئی رپورٹ میں پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ سپلائی کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بھی کہا ہے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی کساد بازاری کے کئی انڈیکیٹرس پہلے ہی اس بارے میں اشارے دے رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی معیشت 1970 کی کساد بازاری سے نکلنے کے بعد اب مشکل ترین مرحلے میں ہے۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکزی بینکوں کی جانب سے عالمی شرح سود 4 فیصد تک ہو سکتی ہے جو 2021 کے مقابلے میں دوگنی ہو گی۔ وہیں خوراک اور تیل کے معاملے میں یہ زیادہ اتار چڑھاو¿ کا شکار ہو کر 5 فیصد تک جا سکتی ہے۔ امریکہ سے لے کر یوروپ اور ہندوستان تک میں قرض کی شرحوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا مقصد سستی کرنسی کی فراہمی کو روکنا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے، لیکن ایسی معاشی پالیسیوں کے نقصانات بھی ہیں۔ اس سے سرمایہ کاری، ملازمتیں اور ترقی متاثر ہوتی ہے۔ ہندوستان سمیت کئی ممالک اس وقت انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ورلڈ بینک گروپ کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے جمعرات کو یہ رپورٹ آنے کے بعد ایک بیان جاری کیا، اس میں انہوں نے کہا کہ عالمی ترقی تیزی سے کم ہورہی ہے، اس کے مزید کم رہنے کی توقع ہے اور ایسی صورتحال میں بہت سے ممالک کساد بازاری کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ ڈیوڈ نے کہا کہ میں بہت پریشان ہوں کہ اس کے طویل ہونے کا امکان ہے۔ ایسی صورتحال میں اس کا بازار اور ترقی پذیر معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا پہلے ہی ریکارڈ مہنگائی سے لڑ رہی ہے۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک یوکرین جنگ ہے جس نے خوراک کی سپلائی میں کمی کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین میں کورونا لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے مانگ میں کمی آئی ہے۔ دوسری جانب مسلسل خراب موسم کی وجہ سے زراعت کے بھی اثرانداز ہونے کی پیش گوئی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے اگست میں ریپو ریٹ میں تیسری بار اضافہ کیے جانے کا اعلان کیا۔ 50 بیسس پوائنٹس کے اضافہ کے ساتھ اب یہ 5.40 فیصد ہے۔ آر بی آئی نے 2022-23 کے لیے افراط زر کی شرح 6.7 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ وہیں جی ڈی پی کی شرح نمو 7.2 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ہندوستان کی خوردہ افراط زر اگست میں 7 فیصد تک پہنچ گئی، جو جولائی میں 6.71 فیصد تھی۔ وہیں صارفین کی افراط زر کی شرح مسلسل آٹھویں مہینے مرکزی بینک کی طرف سے مقرر کردہ 4 فیصد کی حد سے اوپر رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف شرح سود بڑھانا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا، اس کے لیے ممالک کو اشیا کی دستیابی میں بھی اضافہ کرنا ہو گا۔ عالمی بینک کے صدر نے کہا کہ پالیسی سازوں کو کھپت کم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے پیداوار بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS