بقلم🖋____ مجاہد مظفر بیشن پوری
اسلاموفوبیا ایک اصطلاح ہے جو کہ دو لفظ اسلام اور فوبیا کا مرکب ہے- یہ اصطلاح مسلمان اور اسلامی تہذیب کے خلاف خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے مستعمل ہے چونکہ فوبیا لفظ کا مطلب ہی خوف و دہشت کے ہیں ۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے قلب میں اسلامی طرز معاشرت کے خلاف زہر افشانی کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پیدا کی جائے ۔ دشمنان اسلام نے اس کا ایجاد صدیوں پہلے کر دیا تھا اور وہ اس پر کوشاں تھے ۔ لیکن یہ اصطلاح ۹/۱۱ کو ولڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد خوب استعمال ہوا مسلم مخالف تحریکوں نے اس اصطلاح کو خوب فروغ دیا اقوام متحدہ نے اسلاموفوبیا کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے نا قابل معافی جرم قرار دیا ہے ۔ اور اسلاموفوبیا سے نپٹنے کے لئے اب ہر سال 15مارچ کو “اسلاموفوبیا ڈے” منانے کی قرار داد منظور کر لیا ہے
اسلاموفوبیا در اصل مغرب میں پروان چڑھنے والا ایک فتنہ ہے جس سے ہمارا ملک بھی محفوظ نہیں ہے روز اول سے یہاں بھی اس کی ہوائیں چلتی آرہی ہے لیکن ادھر چند سالوں سے جبکہ ملک کے تخت پر زعفرانی علم بردار قابض ہوئے ہیں اسلاموفوبیا کی ہوائیں تیزی سے آندھی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے وہ ملک جو کبھی گنگا جمنی تہذیب کی مثال تھی جہاں ہر طرف بھائی چارگی اور یگانگی تھی آج یہاں فتنہ پرور لوگوں کی شاطرانہ چالوں سے مختلف النوع کلیوں سے سجا یہ گلستان نما ملک ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جہاں ہر طرف ایک خاص طبقہ کو نشانہ ستم بنایا جارہا ہے ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے مآب لینچگ کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے محض اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہے اس کی تہذیب اس کی شناخت اسلام ہے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر بغیر قانونی کاروائی کے اس کا گھر بلڈوزروں سے منہدم کیا جاتا ہے اس کے مذہبی مقامات اس کی مساجد و مدارس کو کبھی دہشتگردی کے اڈے بتاکر تو کبھی اس کے احاطے کو ناجائز قبضہ بتاکر اس کو مسمار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسلامی اصولوں کو غیر فطری بتا کر حجاب ، نکاح ، طلاق، وراثت جیسے احکامات کو انسانیت خصوصا عورتوں کے خلاف بتایا جا رہا ہے رونا تو اس وقت آتا ہے کہ ان تأثرات کو آزادی اظہار رائے بتایا جاتا ہے اور ان سب احکامات پر عمل کو مذہبی جبر و تشدد کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ جہاد جیسے مقدس نام کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑا جارہا ہے حالانکہ مولانا آزاد جیسے لاکھوں مسلمانوں نے علم جہاد بلند کر وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی اور آج ہر چہار جانب دشمنان اسلام اس کے خلاف غلط ہر چہار جانب جہاد کو کبھی لو جہاد سے جوڑا جاتا ہے تو کبھی کسی اور سے جوڑا جاتا ہے اور اس کو جبر و تشدد کی راہ بتائی جاتی ہے ، گاہے بگاہے ملک میں ایسے لوگ رونما ہوتے ہیں جو پیغمبر اسلام کی گستاخی کا ہنگامہ کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی قرآن جیسی مقدس کتاب کے خلاف زہر اگلتے ہیں
یہ سب کچھ اسلاموفوبیا کے سایہ تلے انجام پاتا ہے۔ ان دس سالوں میں اس اقلیتی طبقہ کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو شاید 77 سالوں میں نہ ہوسکا۔اور اس اسلاموفوبیا کا اثر یہ ہوا کہ لوگ مسلمانوں سے نفرت کرنے لگے داڑھی اور ٹوپی کو دیکھ کر ان کے دلوں میں عجیب کیفیت طاری ہونے لگی۔ اسی وجہ سے بہت سے علاقوں میں لوگوں نے مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کیا ان کے ساتھ کسی بھی لین دین کو ممنوع قرار دیا۔ حالات ایسے ہیں کہ بم دھماکے کی آگ بجھنے سے پہلے پہلے یہ الزام لگ چکا ہوتا ہے کہ یہ کسی مسلمان کا کام ہے اسی الزامات کی وجہ سے جیلوں کی کوٹھریوں میں مسلمانوں کی بہتات نظر آتی ہے دہایوں بعد تفتیش کر کے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معصوم ہیں پھر ان کی رہائی ہوتی ہے۔اس عرصہ میں دنیا کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے اور بیچارے ان معصوموں کے اہل خانہ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ان کی اولادوں کی صحیح سے نہ تعلیم ہوتی ہے اور نہ تربیت۔غرض کہ اسلاموفوبیا ہندوستان میں معاندانہ روش اختیار کر چکا ہے اس کے اتنی تیزی سے پھیلانے میں فلم انڈسٹری اور سوشل میڈیا کا بہت بڑا رول ہے۔ بین المذاہب ڈیبیٹ میں کسی عام مسلمان کو اسلامی لباس میں مذہبی رہنما کے طور پر پیش کر کے ان سے وہی سب سوالات کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے مستشرقین اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں افسوس کہ یہ نام نہاد مذہبی رہنما اس کا تشفی بخش جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور پھر اینکر پوری شدومد کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی تہذیب انسان کے لئے درست نہیں۔ فلموں میں اسلامی تاریخ کو مسخ کر کے غلط طریقے سے بیان کیا جاتا ہے۔ غنڈہ گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا ہے اور مسلم فاتحین کو ناجائز تسلط کرنے والے اور لٹیرے کے طور پر پیش کیا تہے اور بتایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کی زور پر پھیلا غرض کہ مسلمانوں کا وجود ان کی شناخت ان کی تاریخ سب کے سب داؤ پر لگی ہے۔ یہ بھی اسلاموفوبیا کے اثر تلے ایک سوچی سمجھی سازش ہے ورنہ یہاں کے سارے مسلمان عربی النسل نہیں ہے بلکہ جب یہاں اسلام آیا تو اس کے اثر سے لوگ اس قدر متأثر ہوئے کہ جوق در جوق دائر اسلام میں پناہ لینے کو اپنی حفاظت تصور کرنے لگے اور آج جب کہ صدیاں گزر چکی لیکن ان کے دلوں میں اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ آج بھی زندہ ہے۔
اس کے باوجود حکمرانوں کے سروں میں جوں تک نہیں رینگتی حالانکہ خود یہی لوگ دستور ہند کی حفاظت کا حلف اٹھاتے نہیں تھکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور تو اور ان سب میں زیر اقتدار جماعت کے بعض وزراء بھی پیش پیش رہتے ہیں بلکہ ان کے اشتعال انگیز بیانات سے یوں لگتا ہے کہ لوگوں کی اسلام کے خلاف ذہن سازی کرنا ان کا ہدف ہے اور یہی ان کا سیاسی ایجنڈا بھی ہے ( لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا ) اے نبی کریم ﷺ آپ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہود اور مشرکین کو پائیں گے
قارئین کرام آیئے ہم سب اسلاموفوبیا کے خلاف صف بستہ ہوجائیں اسلاموفوبیا سے بالکل نہ گھبرائیں بلکہ اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ لوگوں کے دلوں میں اسلام کا صحیح تصور پیدا کریں تاکہ وہ بھی اسلام کی حقیقت سے واقف ہوسکے اور اسلام پر گامزن ہو سکے کیونکہ ان سب سے دشمنان اسلام کی منشاء بس ایک ہی ہے ( ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا ) اور یہ مشرکین ہمیشہ تم سے قتال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں گے۔