وَن نیشن وَن الیکشن : آئین کی روح کے منافی اور کثیر جماعتی جمہوری نظام کے خلاف

0

عبیداللّٰہ ناصر

سیاسی بحث کا موضوع بدل دینے کی مہارت میں مودی کے مقابلہ کا کوئی لیڈر شاید ہی آزادی کے بعد پیدا ہوا ہو، ملک میں جب کبھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے، لوگ ان کی حکومت کے خلاف بولتے یا سوچتے ہیں تو وہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر بحث کا موضوع بدل دیتے ہیں اور تابعدار میڈیا رات نو بجے ڈ ھول بجانا شروع کر دیتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال ہے ون نیشن ون الیکشن کا شوشہ۔ ممبئی میں اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ کی 28 پارٹیوں کے اجلاس پر پورے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں کہ مودی جی نے یہ شوشہ چھوڑ کر سیاسی بحث کا موضوع بدل دیا۔ان کی یہ کوشش اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوگی، یہ کہنا قبل از وقت ہے مگر اپوزیشن کا یہ اتحاد گزشتہ دس برسوں میں مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ میڈیا لاکھ ہوا باندھے، پیڈ سروے کے ذریعہ مودی جی کی مقبولیت کا چاہے جتنا پرچار کیا جائے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ اب عوام مہنگائی، بے روزگاری ہی نہیں ملک میں بڑھ رہی نفرت، تشدد اور فرقہ پرستی سے بھی اوب چکے ہیں جس کی تازہ ترین مثال ہریانہ میں جاٹوں، گوجروں اور دوسری برادریوں کا مسلمانوں کی حمایت میں کھڑا ہونا ہے۔ مظفر نگر میں ایک کم عمر مسلم بچے کے ساتھ اس کی ٹیچر نے جو زیادتی کی، اس کی مخالفت میں جاٹوں کی سب سے بڑی کھاپ کے چودھری نریش ٹکیت کا سامنے آنا اور ان سب سے بھاری رہا، محض فرقہ وارانہ نفرت کی بنیاد پر معطل کیے گئے روڈویز بس کے کنڈکٹر موہت یادو کی خودکشی کے بعد فیکٹ چکر محمد زبیر کی پہل پر اس کے خاندان کی مالی مدد کے لیے صرف دو دن میں25لاکھ روپے جمع ہوجانا جس میں اکثریت ہندو چندہ دہندگان کی ہے۔اس مہم میں ایک روپیہ چنددہ دینے والے نے بھی فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ ملک میں دھیرے دھیرے ہی سہی تبدیلی کی ایک بیار چلنے لگی ہے جو 2024 کا عام چناؤ آتے آتے آندھی بھی بن سکتی ہے جس نے مودی جی اور ان کے پورے کنبہ کی نیند اڑا رکھی ہے ۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے اس اتحاد سے مودی جی سب سے زیادہ ڈرے ہوئے ہیں، الیکشن ہارنے اور اقتدار سے محروم ہونے کا فطری خوف ہر حکمراں کو ہوتا ہے مگر مودی جی کا اصل خوف ان کا اپنا ہی ایجاد کردہ وہ طرز حکمرانی ہے جس کے تحت انہوں نے سرکاری محکموں اور افسروں کا استعمال کر کے اپوزیشن کے لیڈروں کو جیل بھیجا، ان پر جھوٹے مقدمات درج کرائے، ان ایجنسیوں اور اتھاہ دولت کے سہارے اپوزیشن کی منتخب حکومتوں کو گرایا، اڈانی سے ان کے تعلقات، جس کو لے کر نت نئے نئے انکشاف بیرونی میڈیا کے ذریعہ کیے جا رہے ہیں، محض دس برسوں کی حکومت میں بی جے پی کے پاس تقریباً چار ہزار کروڑ روپے جمع ہو جانا، پرائم منسٹر فنڈ پر راز کی دبیز چادر پڑی ہونا، دفاعی سودوں میں ہوئی مبینہ بد عنوانی کو دبا دینا، یہ سب فائلیں حکومت جاتے ہی کھل سکتی ہیں اور اس بار ظاہر ہے کہ مودی جی کی حکومت میں خون تھوک چکا اپوزیشن اگر حکومت میں آگیا تو وہ بھی کوئی مروت، کوئی رواداری کیا شا ید کوئی شرافت بھی نہ دکھائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ آر ایس ایس نے مودی کے متبادل پر بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے اور اس میں نتن گڈکری کا نام سر فہرست ہے۔ گزشتہ دنوں سی اے جی کی رپورٹ میں شا ہرا ہوں کی تعمیر میں جس بدعنوانی کو اجاگر کیا گیا ہے، سیاسی حلقہ اسے مودی جی کی سازش ہی بتا رہے ہیں جس کا مقصد نتن گڈکری کو بدنام کر کے انہیں وزیراعظم کے عہدہ کی ریس سے باہر کرنا ہے۔ مودی جی اپنے مخالفین کو چاہے وہ اپوزیشن کے ہوں یا ان کی اپنی ہی پارٹی کے، کس بے دردی سے کچلتے ہیں، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مودی جی کی دیرینہ خواہش چین کے شی جن پنگ، روس کے پوتن اور ترکیہ کے طیب اردگان کی طرح تاحیات حکمراں بننے اور ملک میں ایک پارٹی نظام نافذ کرنے کی ہے۔ آر ایس ایس ویسے بھی ایک نشان، ایک سنوید ھان، ایک پردھان( ایک جھنڈا، ایک آئین، ایک حکمراں ) کی بات کرتا رہا ہے،اس لیے 2024کا چناؤ جیتنا مودی جی اور اپوزیشن دونوں کے لیے موت زندگی کا سوال ہے۔
’ون نیشن، ون الیکشن‘ کا پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات اور عام انتخابات سے چند ماہ قبل شوشہ چھوڑنا مودی جی کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں تشکیل کی گئی کمیٹی جس میں وزیر داخلہ امت شاہ اور لوک سبھا میں کانگریس گروپ کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو بھی شامل کیا گیا ہے ،محض دکھاوا ہے، اول توآزا د ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہاہے کہ کسی سابق صدر جمہوریہ کو کسی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہو، مسٹر کوو ند کو اگر اپنے سابق عہدہ کی عزت اور وقار کا پاس لحاظ ہوتا تو وہ یہ کرنے سے انکار کر دیتے، ادھیر رنجن چودھری نے کمیٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے، پوری کمیٹی در حقیقت امت شاہ کے ہی تابع ہوگی اور اس کا پورا خاکہ پہلے سے ہی تیار رکھا ہے، فارمیلیٹی کے طور پر میٹنگ ہوگی اور پھر اسی خاکہ کو منظوری دے دی جائے گی۔مگر اس میں دقت یہ ہوگی کہ آئین میں ترمیم کرنا ہوگی جس کے لیے لوک سبھا میں سرکار کو دو تہائی اکثریت چاہیے جو اس کے پاس نہیں ہے، پھر ریاستی اسمبلیوں سے بھی منظوری لینی ہوگی یہ بھی آسان نہیں ہے، لیکن در حقیقت مودی جی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے، وہ اس کے لیے بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔
مودی جی کی یہ حکمت عملی کثیر جہت ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں کے مفاد کا ٹکراؤ ہوگا جس سے اتحاد کمزور ہوگا، دوسرے بی جے پی کے پاس اتھاہ دولت ہے، پبلسٹی وزیراعظم، مرکزی وزرا، وزرائے اعلیٰ اور ان کے وزیروں کے دورے اور پروگرام سرکاری خرچ پر ہوں گے، جبکہ اتنا بڑا چناؤ لڑنے کے لیے اپوزیشن خاص کر کانگریس کا خزانہ خالی ہے، کانگریس کے پاس بمشکل دو سو کروڑ روپے ہیں جبکہ بی جے پی کے پاس تقریباً چار ہزار کروڑ روپے ہیں۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کی بڑی فوج، میڈیا کی طاقت، سب مودی کے حق میں ہیں، دوسرے مودی جی یہ جانتے ہیں کہ نجی مقبولیت میں کوئی دوسرا لیڈر ان کا فی الحال مقابلہ نہیں کر سکتا، اسمبلیوں اور لوک سبھا کے چناؤ ساتھ ہوں تو لڑائی مودی کے نام پر ہی ہوگی، اس طرح وہ دونوں چناؤ جیت کر خاص کر ہندی بیلٹ میں راج کر سکتے ہیں۔
دھیان رکھنا چاہیے کہ بی جے پی کا مشہور جملہ ڈبل انجن کی سرکار اور اب یہ ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا شوشہ آئین کی روح کے خلاف ہے، دستور ساز اسمبلی کی تین سال چلی کارروائی اور بحث و مباحثہ میں یہ دونوں نکات کبھی زیر غور نہیں آئے کیونکہ یہ ہندوستان کے حالات اور کثیر جماعتی جمہوریت کے مزاج سے میل نہیں کھاتے مگر بی جے پی اپنے نظریہ ’ایک نشان، ایک سنویدھان، ایک پردھان‘ کے تحت یہ نظام لاگو کرنا چاہتی ہے جو اور کچھ نہیں کمیونسٹ اور عربوں کے آمرانہ نظام کا نفاذ اور کثیر جماعتی جمہوری نظام کا قتل ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS