بے روزگاری کا بڑھتا بحران

0

سروج کمار

بے روزگاری ملک کا ایسا مسئلہ بن گئی ہے، جس کا نہ تو حل نظر آتا ہے، نہ ہی حل کی کوئی سوچ ہی سامنے ہے۔ بے قابو روزگاری سرپٹ دوڑ رہی ہے اور ہم میکانکی طور پر کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر میں 55لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے۔ بے روزگاری صرف ایک شخص کے مستقبل کو ہی برباد نہیں کرتی، بلکہ اس پر انحصار کرنے والوں، معیشت اور آخر میں ملک کے مستقبل کو بھی تباہ کرتی ہے۔ یہ باہر سے جتنا متاثر کرتی ہے، اس سے کہیں زیادہ اندر سے کھوکھلا کرتی ہے۔ یہ ذہن و دل کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ٹوٹے دل کے ساتھ کوئی ملک اپنی صدی کی کون سی حتمی ہیئت اختیار کرے گا، ذرا تصور کیجیے۔
یہ حقیقت ہے کہ بے روزگاری کا بحران آج کا نہیں ہے۔ لیکن بڑا سچ یہ ہے کہ آج یہ بحران خوفناک ہوچکا ہے۔ جب کہ بحران کی سنگینی فوری کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ قومی شماریات کا دفتر(National Statistics Office) کے پی ایل ایف ایس(periodic labour force survey) کی پہلی تین رپورٹیں بتاتی ہیں کہ بے روزگاری کی حالت وبا سے پہلے ہی تشویش ناک ہوچکی تھی۔ مئی 2019میں جون 2017–جولائی-2018کے لیے پی ایل ایف ایس کی جب پہلی رپورٹ آئی تو ہنگامہ مچ گیا۔ بے روزگاری کی شرح 45سال کی اعلیٰ سطح 6.1فیصد پر پہنچ گئی تھی جو نام نہاد معاشی اصلاحات نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد کی تھی۔ پی ایل ایف ایس کی بعد کی دو سالانہ رپورٹوں میں بے روزگاری کی شرح میں تھوڑی بہتری ضرور نظر آئی اور یہ جولائی 2018- – جون- 2019 کے دوران 5.8فیصد، جولائی 2019 – جون- 2020کی مدت میں 4.8فیصد درج کی گئی تھی۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے بے روزگاری کی اتنی شرح بھی کسی وبا سے کم نہیں تھی۔ لیکن کورونا وبا سے عین قبل فروری-2020میں بے روزگاری کی شرح 7.8فیصد ہوگئی۔ لوگوں نے اسے تاریخی تسلیم کرلیا تھا۔ لیکن وبا کے دوران یہ تاریخ لکھنے سے قبل کا وقت (prehistoric) بن گئی۔تب سے اب تک بے روزگاری کی شرح کم سے کم تاریخی سطح پر قائم ہے۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ ماہ یعنی ستمبر میں بے روزگاری کی شرح 6ماہ بعد پہلی مرتبہ 6.86فیصد کی نچلی سطح پر آئی تھی۔ امید پیدا ہوئی تھی کہ تہواری موسم میں اکتوبر اضافی روشنی لے کر آئے گا۔ لیکن بے روزگاری کی شرح نے ’اماوس کی رات‘ کو مزید سیاہ کردیا اور یہ 7.75فیصد کی اونچائی پر پہنچ گئی۔ یہ صورت حال تب ہے کہ جب ملک میں بے روزگار صرف اسے سمجھا جاتا ہے، جس کے پاس ہفتہ میں ایک گھنٹہ کا بھی روزگار نہیں ہوتا۔ اکتوبر کی بے روزگاری کی شرح روزگار بازار کی خستہ حالی کا آئینہ بھی ہے، کیوں کہ بے روزگاری کی شرح میں یہ اضافہ لیبر مارکیٹ میں ایل پی آر(labor force participation rate) کم ہونے کے باوجود ہوا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
ستمبر میں لیبر مارکیٹ میں لیبر فورس کی شرکت 40.7فیصد تھی جو اکتوبر میں کم ہوکر 40.4فیصد ہوگئی۔ لیبر فورس کی شرکت کی شرح کا کیلکولیشن بازار میں دستیاب کل لیبرفورس یعنی روزگار میں مصروف اور روزگار کے لیے کوشش کررہے لوگوں کی کل تعداد کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے۔ تہواری موسم میں، بالخصوص دیوالی پر بازار میں ڈیمانڈ میں فطری طور پر اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ لیکن اکتوبر میں تقریباً 55لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے۔ ستمبر میں برسرروزگار لوگوں کی کل تعداد تقریباً چالیس کروڑ 62لاکھ تھی، جو اکتوبر میں کم ہوکر چالیس کروڑ 7لاکھ 70ہزار ہوگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ شہری علاقہ میں 7لاکھ سے زیادہ نئے روزگار تیار ہوئے۔ لیکن دیہی علاقہ میں منظم اور غیرمنظم دونوں سیکٹروں میں 60لاکھ سے زیادہ بے روزگار ہوگئے۔ اکتوبر میں دیہی بے روزگاری کی شرح ستمبر کے 6.06فیصد سے بڑھ کر 7.91فیصد ہوگئی۔ جب کہ شہری بے روزگاری کی شرح ستمبر کے8.62فیصد سے کم ہوکر 7.38فیصد پر آگئی۔
دیہی علاقوں میں زیادہ تر روزگار غیرمنظم شعبہ کے ہیں اور غیرمنظم مزدوروں کا حصہ ملک کی کل افرادی قوت میں تقریباً 92فیصد ہے۔ غیرمنظم مزدوروں کا ایک بڑا حصہ زراعت اور منریگا سے جڑا ہے۔ لیکن اکتوبر میں زرعی شعبہ میں 24لاکھ مزدور بے روزگار ہوگئے۔ ربیع کی بوائی کا موسم ہونے کے باوجود زرعی شعبہ میں مزدوروں کا بے روزگار ہونا مہنگائی کے دباؤ کا اشارہ ہے۔ کمائی کم ہونے اور مہنگائی میں اضافہ کے سبب کھیتی کی لاگت کم کرنا کسان کی مجبور بن گئی۔ بیشک اس کا اثر پیداوار پر ہوگا۔ لیکن اسی ماہ کسانوں کی تعداد میں 90لاکھ اضافہ ہوگیا۔ یعنی بازار میں روزگار نہ ملنے کے سبب کھیتی کی طرف لوگوں کا لوٹنا جاری ہے۔ اس کا ایک سبب کسانوں کے کھاتوں میں ہر سال پہنچنے والا 6ہزار روپے بھی ہے۔
دیہی علاقوںمیں روزگار مہیا کرانے والا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ منریگا ہے۔ لیکن موجودہ مالی سال میں اس اسکیم کے نام 73ہزار کروڑ روپے ہی مختص کیے گئے۔ یہ پیسہ 6ماہ میں ہی خالی ہوگیا اور منریگا مزدوروں کی دیوالی کالی ہوگئی۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 29اکتوبر تک ریاستیں اس مد میں کل 79,810کروڑ روپے خرچ کرچکی تھیں۔کل 21ریاستوں میں منریگا کا پورا بجٹ ختم ہوگیا، کئی ریاستوں نے تو بجٹ سے زیادہ خرچ کرڈالا۔ اب پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن میں منریگا کے لیے ضمنی بجٹ مختص ہوگا، روزگار تبھی دستیاب ہوپائے گا۔
منریگا غیرہنرمند کارکنان کو براہ راست روزگار مہیا کرانے کے لیے مرکزی حکومت کی واحد اور سب سے بڑی روزگار اسکیم ہے۔ لیکن منریگا مزدوری بازار کے مقابلے جیسے ہی کم ہوئی، یہ اسکیم چمک کھونے لگی۔ مختلف ریاستوں میں منریگا کی مزدوری کا الگ الگ حساب ہے اور یہ کم سے کم 193 روپے (چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش) سے لے کر زیادہ سے زیادہ 318روپے(سکم) ہے۔ یعنی ایک منریگا مزدور سال میں زیادہ سے زیادہ 31800روپے ہی کما سکتا ہے۔ اتنے میں کوئی ایک فیملی کیسے چلے گی، یہ بڑا سوال ہے۔ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوانوں کی بے روزگاری کی الگ کہانی ہے۔ افرادی قوت کے اس حصہ کے لیے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس اسکیم نہیں ہے۔ پبلک سیکٹر صاف ہونے کے دہانے پر ہے اور پرائیویٹ سیکٹر نئی نوکریاں پیدا کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ آئی ایچ ایس مارکیٹ انڈیا کا پرچیزنگ منیجرس انڈیکس(پی ایم آئی) مسلسل اوپر چڑھ رہا ہے۔ اکتوبر میں مینوفیکچرنگ پی ایم آئی 55.9پر پہنچ گئی، جو ستمبر میں 53.7پر تھی۔ وبا سے ٹھیک پہلے فروری 2020میں مینوفیکچرنگ پی ایم آئی54.5تھی۔یعنی مینوفیکچرنگ سیکٹر کی معاشی صحت وبا سے قبل کی سطح سے آگے نکل چکی ہے، لیکن غیرمستحکم معاشی ماحول نئی سرمایہ کاری کے راستہ میں روڑہ ہے۔ کمپنیاں خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نئی نوکریاں پیدا نہیں ہوپارہی۔ ہاں، سروس سیکٹر میں دیوالی کا ماحول ضرور ہے اور اسی کے دم پر اکتوبر میں شہری علاقہ کی بے روزگاری کی شرح نیچے آئی ہے۔
یہ طے ہے کہ معاشی ماحول مستحکم ہونے تک پرائیویٹ سیکٹر نئی سرمایہ کاری نہیں کرنے والا ہے۔ ایسے میں حکومت کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مستحکم معاشی ماحول بنانے کے لیے شرح نمو کی قواعد چھوڑ کر نوکریوں میں سرمایہ کاری کرے۔ نئی نوکریاں نہ بھی پیدا کرے، تو کم سے کم خالی پڑی اسامیوں کو ہی پُر کردے۔ اس سے بازار میں ایک پائیدار ڈیمانڈ کی صورت حال پیدا ہوگی، پھر پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نئی نوکریاں آئیں گی۔ ملک میں 60لاکھ سے زیادہ سرکاری عہدے خالی ہیں۔ اکیلے مرکزی حکومت میں 8.72لاکھ سے زیادہ آسامیاں ہیں۔ انہیں بھرنے سے ہی معاشی ترقی کی نئی اور اونچی راہ نکلے گی۔ ہمیں معاشی عدم استحکام کو معاشرتی عدم استحکام میں بدلنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS