دہلی میں آلودگی کم کرنے کی کوشش

0

آلودگی کا مسئلہ روزبرو زسنگین ہوتاجارہاہے۔ خاص کر ملک کے بڑے شہروں میں آلودگی اور زہریلی ہوائوں کی وجہ سے سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے۔قومی راجدھانی خطہ دہلی کی صورتحال تو انتہائی ابترہوگئی ہے۔دن کے اوقات میں بھی ماحول دھواں دھواں سا ہے اور لوگ سانس لینے میں گھٹن محسوس کررہے ہیں۔خاص کر معمر افراد اور بچوں پر زہریلی ہوائوں کا خطرناک اثر پڑرہاہے۔دہلی، ہندوستان کے ان 10شہروں میں سرفہرست ہے، جہاں کی ہوا اتنی زہریلی ہوگئی ہے کہ اس میں سانس لینے والے جاندار وں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
یہ صورتحال تقاضا کررہی تھی کہ جنگی پیمانہ پر اس کا حل نکالا جائے۔ سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعدبالآخر دہلی کی اروند کجریوال حکومت نے آلودگی پر قا بو پانے کی سمت سخت قدام اٹھاتے ہوئے نئی دہلی کے ساتھ ساتھ قومی راجدھانی خطہ میں تعمیراتی کاموں پر مکمل پابندی لگا دی ہے اور اسکول اور کالج بند بھی کردیے ہیں۔نیز ورک فرام ہوم کا حکم بھی جاری کیا گیاہے۔
پہلے تو آلودگی کی اس سنگین صورتحال کو مرکزنے کسانوں کے سر ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن عدالت نے اسے یکسر مسترد کردیا اور حکومت کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی کیلئے کسانوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ایک فیشن بن گیا ہے۔یہ درست ہے کہ کسان پرالی جلاتے ہیں جن سے دھواں اورآلودگی ہوتی ہے لیکن صنعتی اور تعمیراتی اکائیوں، شہر کی سڑکوں پر چلنے والی لاکھوں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اس سے کہیں زیادہ مضر ہے اور ماحول کو آلودہ کررہاہے، ایسے میں حکومت فضائی آلودگی کی ذمہ داری صرف کسانوں پر ڈال کر اپنا دامن نہیں بچاسکتی ہے۔
عدالت کی سرزنش کے بعد حکومت کو اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ آلودگی میں اضافہ کی بڑی وجہ صنعتی اکائیاں، پاور پلانٹ اور پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں بھی ہیں۔ سپریم کورٹ نے دہلی کی سنگین صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر تمام متعلقہ ریاستوں اور اداروں کی میٹنگ بلاکر آلودگی کم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ عدالت کے اس حکم کے بعد ہی آلودگی پر پنجاب، ہریانہ، یوپی اور دہلی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ آج ہوئی میٹنگ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ این سی آر کے علاقوںمیں ورک فرام ہوم (گھر سے کام) کو نافذ کیا جائے۔
رواں مہینہ کے آغاز میں گلاسگو میں 26ویں اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینج کانفرنس(COP26)سے خطاب کرتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کیلئے وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی جانب سے دنیا کو پنچ امرت دیاتھایعنی تحفظ ماحولیات کیلئے وزیراعظم نے پانچ ارادوں کا اظہار کیاتھا۔ ان پنچ امرت میں 2030تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو45فیصد تک کم کرنے اور 2070 تک نیٹ زیرو کا ہدف حاصل کرنا بھی شامل ہے۔
لیکن ملک بھر میں خا ص کر دہلی کی جوصورتحال ہے، اس میں اس ہدف کا حصول مشکل ہی نظرآرہاہے۔اور یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ گلاسگو میں وزیر اعظم نے جو ارادے ظاہرکیے ہیں وہ اگلے سال تک لوگوں کو یاد بھی رہیں گے یا نہیں کیوں کہ جب وزیراعظم گلاسگو میں تحفظ ماحولیات کیلئے دنیا کو پنچ امرت بانٹ رہے تھے، اس وقت ہندوستان اور دہلی کے لوگوں کے حصہ میں دھواں ہی دھواں اور زہریلی ہوائیں تھیںاوراب یہ زہریلی ہوائیںاپنا دائرہ بھی بڑھاتی جارہی ہیں۔ حال ہی کے دنوں میں جاری ایئر کوالٹی انڈیکس مانیٹرنگ آرگنائزیشن آئی کیو ایئر میں 556 پوائنٹس کے ساتھ دہلی دنیا کے 10 شہروں میں سرفہرست ہے۔دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں سے 3 دہلی، کولکاتا اور ممبئی کے نام شامل ہیں اور اس میں بھی دہلی سب سے زیادہ آلودہ ہے۔ آلودگی اور زہریلی ہوائوں کے معاملے میں دہلی کے بعد کولکاتا دنیا میں چوتھے نمبرا ور ہندوستان میں دوسرے نمبر ہے جب کہ عروس البلاد ممبئی کا نام عالمی سطح پر چھٹے نمبر پر اور ملک میں تیسرے نمبر پر درج کیا گیا ہے۔ ملک میں ہونے والی کل اموات میں 30.7فیصداموات کا سبب یہ زہریلی ہوائیں ہورہی ہیں۔ گزشتہ سال 2020میں ملک بھر میں زہریلی ہوائوں کی وجہ سے کل 1,20,000 افراد موت کا شکار ہوگئے تھے۔صرف دہلی میںہی زہریلی ہوائوں کی وجہ سے 54ہزار افراد کی قبل از وقت موت ہوگئی تھی۔
اب جب کہ دہلی میںانسانوں کے اندر جانے والی ہر سانس زہرآلود ہے تو ضرورت تھی کہ فوری طور پر اس کے تدارک کی کوشش کی جاتی اور ایسے ٹھوس اقدامات کیے جاتے کہ دو تین دنوں میں آلودگی ہر صورت کم ہو جائے۔
بہرحال دیر سے ہی سہی حکومت نے اس سمت میں کوئی قدم تو اٹھایا ہے۔ورک فرام ہوم کی وجہ سے ٹریفک کم ہوگا اور گاڑیاں کم چلیں گی تو آلودگی بھی کم پھیلے گی، اسی طرح تعمیراتی کاموں پرا متناع سے بھی کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی جس سے ہوا میں زہریلے مواد کو کم کیاجاسکے گا۔امید تویہی کی جانی چاہیے کہ حکومت کے ان اقدامات سے صورتحال میں بہتری آئے گی اوردہلی کی ہو ا انسانوں کے سانس لینے کے لائق ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS