عبدالماجد نظامی
ریاست کرناٹک جہاں مذہبی منافرت کی زہریلی ہوا کئی مہینوں سے لگاتار چل رہی ہے اور ہندوتو جماعتیں فرقہ وارانہ تشدد کی نت نئی تاریخ ہر روز رقم کر رہی ہیں، اب مسئلہ نے ریاست کے تمام سنجیدہ طبقہ کو بری طرح پریشان کر دیا ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی کرناٹک کے61ترقی پسند مفکرین نے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا تھا اور ریاست کے وزیراعلیٰ بسوراج بومئی کو خط لکھ کر اپنے غصہ اور فکر مندی کا اظہار کیا تھا۔ ان مفکرین نے بی جے پی کے لیڈر اور ریاست کے وزیراعلیٰ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کریں اور مذہبی منافرت کے اس ماحول کو روکیں ورنہ ریاست کو سخت مسائل سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ اور جے ڈی ایس کے سربراہ ایچ ڈی کمارا سوامی نے بھی ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت کے بڑھتے سیلاب پر اپنے موقف کا اظہار واضح لفظوں میں کیا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ بومئی پر یہ الزام تک لگایا ہے کہ وہ تشدد پسند ہندوتو جماعتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گئے ہیں۔ ریاست کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ کس جہت میں جا چکا ہے اور اس کے کیا منفی نتائج سامنے آئیں گے، اس کے پیش نظر خود بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو لیڈران نے اس ہندوتو پالیسی کی مخالفت کی ہے اور مسلمانوں کے خلاف جاری اقتصادی اور تجارتی بائیکاٹ کے اعلانوں کی سخت مذمت کی ہے۔ کارپوریٹ دنیا کی معروف اور اہم شخصیت کرن مجمدار شا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کا تعلق ریاست کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو سے ہے اور اس شہر کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے ہندوستان کی ٹیکنالوجی راجدھانی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس شہر کو ہندوستان کی سیلیکون ویلی بھی کہتے ہیں۔ کرن مجمدار شا بایوکون لمیٹڈ کمپنی کی ایگزیکٹیو چیئرپرسن ہیں اور ہندوستان کی ممتاز شخصیات کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے بھی ریاست میں روزبروز بڑھتی مذہبی منافرت کے ماحول پر اپنی فکرمندی ظاہر کی ہے۔ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ریاست کے وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ کرناٹک نے ہمیشہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والا اقتصادی ترقی کا ماڈل اختیار کیا ہے لہٰذا ہمیں یہ گوارہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم فرقہ وارانہ طور پر ایک دوسرے کو الگ تھلگ کرنے لگ جائیں۔ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بایو ٹیکنالوجی کا سیکٹر بھی فرقہ واریت کا شکار ہوگیا تو اس میدان میں ہماری عالمی قیادت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر باضابطہ وزیراعلیٰ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ وہ اس بڑھتی فرقہ واریت پر مبنی تقسیم کو روکیں۔
قارئین واقف ہوں گے کہ کرناٹک کے اڈوپی ضلع کے ایک کالج میں سب سے پہلے حجاب پہن کر کالج جانے والی مسلم بچیوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں حجاب اور تعلیم کے درمیان آپشن دیا گیا کہ یا تو وہ تعلیم حاصل کریں یا پھر اسلامی شعار کو اختیار کریں۔ کالج انتظامیہ کے بقول دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس معاملہ نے طول پکڑا اور دھیرے دھیرے پوری ریاست کے مختلف کالجوں اور اسکولوں میں باحجاب مسلم بچیوں کے لیے مسائل کھڑے ہوگئے۔ اس قضیہ کے تصفیہ کے لیے مسلم بچیوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن وہاں سے کسی انصاف کے بجائے مایوسی ہی ہاتھ آئی۔ جس معاملہ کو ہندوتو عناصر نے معاشرہ میں فرقہ وارانہ تقسیم و انتشار کے لیے منتخب کیا تھا، عدالت کے تین ججوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ مسلم بچیوں نے سپریم کورٹ سے التجا کی تھی کہ چونکہ ریاست میں بورڈ کے امتحانات سر پر ہیں، اس لیے فوری راحت کا انتظام کریں تاکہ باحجاب مسلم بچیاں سکون سے اپنے تہذیبی شعار کے ساتھ امتحان میں حصہ لے سکیں۔ لیکن ایسا کرنے سے سپریم کورٹ نے صاف انکار دیا۔ ہندوتو کے عہد میں سپریم کورٹ کو صرف گودی میڈیا کے آئیکن ارنب گوسوامی کے معاملہ کو بلاتاخیر حل کرنے میں دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔ بہر حال کرناٹک میں حجاب کو متنازع بناکر مسلمانوں کے تشخص پر شدید حملہ کا سلسلہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے خلاف اقتصادی اور تجارتی بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ یہ روایت کئی سو برسوں سے چلی آرہی ہے کہ کرناٹک کے مندروں کے ارد گرد نومبر کے مہینہ سے میلے لگنے شروع ہوجاتے ہیں اور اس کا سلسلہ اپریل تک جاری رہتا ہے۔ ان میلوں میں جو تاجر شامل ہوتے ہیں وہ ہر طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پوری تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر کبھی تفریق نہیں کی گئی۔ یہ میلے تمام تاجروں کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان چھ مہینوں میں اتنا کما لیتے ہیں کہ سال کے باقی مہینوں کی سست بازاری کی تلافی کا سامان مہیا ہوجاتا ہے۔ اس بار جب حجاب کے مسئلہ پر بند کا اعلان کیا گیا تو حمایت میں مسلمانوں نے بھی بعض علاقوں میں اپنی دکانیں بند کی تھیں۔ اس کو بہانہ بناکر ریاستی حکومت نے مندر کے ارد گرد لگنے والے میلے میں مسلمانوں کی دکانوں کی عدم شمولیت کا فرمان جاری کر دیا۔ اسی پر ایک رپورٹ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوئی جس میں مندر کے ذمہ داران اور ہندو مذہبی رہنماؤں کے علاوہ عام ہندو تاجروں سے کی گئی گفتگو کا ماحصل پیش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندو رہنماؤں اور مندر کے پجاریوں نے بتایا تھا کہ ان پر تشدد پسند ہندوتو جماعتوں کا سخت دباؤ ہے ورنہ وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان تاجروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندو تاجروں نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ وہ بہت پشیماں ہیں کہ مسلمان تاجروں کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے لیکن اگر وہ حمایت میں آواز اٹھائیں گے تو انہیں بھی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گویا سابق وزیراعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی کا یہ الزام درست ہے کہ بومئی رائٹ ونگ جماعتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور اپنی دستوری ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ کرن مجمدار شا نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی مذکورہ بالا رپورٹ کو ہی بنیاد بناکر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ اقتصادی بائیکاٹ کا یہ معاملہ اب صرف مندروں کے میلے میں مسلمانوں کی عدم شمولیت کے فرمان تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔ اب ایک شوشہ بی جے پی کے نیشنل جنرل سکریٹری سی ٹی روی کی طرف سے چھوڑا گیا ہے۔ انہوں نے حلال میٹ کو مسلمانوں کی جانب سے کیا جانے والا ’’اقتصادی جہاد‘‘ قرار دیا ہے اور ہندوتو جماعتیں شدومد کے ساتھ آن لائن تشہیری پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں کہ ورشاڈوڈک نامی تہوار سے قبل وہ مسلمانوں سے گوشت نہ خریدیں۔ ’’ورشاڈوڈک‘‘نامی یہ تہوار اوگاڈی کے ایک دن بعد منایا جاتا ہے۔ اوگاڈی ہندوؤں کے نئے سال کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہندو دیوی دیوتاؤں کے حضور تقرب کے لیے گوشت چڑھایا جاتا ہے جس کی خریداری مسلمانوں کی دکانوں سے بھی ہوتی ہے۔ ہندوتو کی تشدد پسند جماعتیں اسی سلسلہ کو روکنا چاہتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان سے بے دخل کرکے انہیں یا تو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیں یا پھر انہیں ان کے ایمان و عقیدہ سے دور کرکے کفر کے دلدل میں گھسیٹ لائیں۔ لیکن کیا مسلمان کبھی اس کو گوارہ کرے گا؟ وہ تو اپنے ایمان اور پورے تشخص کے ساتھ ہی اس ملک میں پوری عزت کے ساتھ جینا گوارہ کرتا ہے بس۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]
کرناٹک میں مذہبی منافرت کا بڑھتا طوفان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS