بڑھتی مہنگائی اور حکومت کی خاموشی

0

اچھے دنوں کی امید میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو دوسری بار اقتدار سونپنے والے ہندوستان کے عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بربادی کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں۔ تیل کمپنیوں نے گزشتہ10 دنوں میں اب تک 9 بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کے بعدکولکاتا میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر 111.35 روپے اور ڈیزل96.22روپے ہوگئی ہے۔ جب کہ دہلی میں پٹرول101.81 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 93.07 روپے فی لیٹر پہنچ گیا ہے۔غریب اورمتوسط طبقے کیلئے کھانا پکانے والی گیس کی قیمت میں بھی 50 سے 96 روپے فی سلنڈر اضافہ کر دیا گیا ہے۔مزید اضافہ بھی خارج ازامکان نہیں ہے۔ دوسری طرف کل یکم اپریل سے انتہائی ضروری دوائوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے جارہا ہے۔ان دوائوں میں زندگی بچانے والی بنیادی دوائیں شامل ہیں۔ درد کش پیراسیٹامول سے لے کر بلڈپریشر کو قابو میںرکھنے والی ٹیلما اور ٹیلواس تک کی قیمتوں میں فی 10 گولی 10 روپے کا اضافہ کردیاگیا ہے۔ اس فہرست میںاینٹی بائیوٹکس، ایزیتھرو مائسن، ذیابیطس اور امراض قلب سمیت کل 750 اقسام کی ادویات شامل کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری ضروری اشیا اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ستمبر میں مہنگائی کی شرح 4.34 فیصد تھی، اس سال فروری میں یہ شرح بڑھ کر 6.06 فیصد ہوگئی ہے اور قیمتوں میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔
ایک طرف حکومت مہنگائی میں اضافہ کرکے غریبوں اور محنت کشوں کے پیٹ پر لات ماررہی ہے تو دوسری جانب لوگوں کی آمدنی کم کرنے کی بھی ظالما نہ کوشش کی جارہی ہے۔ بچت پر منافع یعنی سود کی شرح بھی کم کردی گئی ہے۔ ملازم پیشہ افراد کی زندگی بھر کی بچت پی ایف پر بھی شرح سود میں بھاری کمی کردی گئی ہے۔پی ایف لوگوں کی آمدنی کا آخری ذریعہ ہوتا ہے، اس پر ملنے والے منافع کی شرح کو 7.5 فیصد سے کم کرکے 7.1 فیصد کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ دوسرا وار بچت اسکیموں پر کیاجانا ہے۔ڈاکخانوں میں قلیل مدتی بچت اسکیموں پر بھی شرح سود کم کرنے کیلئے مختلف دلائل تراشے جارہے ہیں۔اس کیلئے حکومت ریزروربینک آف انڈیا کے مشورہ کی آڑ لے رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بہت سے بزرگوں کی بقا کا انحصار ہی ان بچتوں پر ملنے والے منافع پر ہوتا ہے۔ اگراس میں ایک بار پھر کمی کی جاتی ہے تو مہنگائی کے اس بازار میں بہت سے لوگوں خصوصاً بزرگوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
لیکن حکومت اس معاملہ میں بالکل ہی خاموش ہے اورا یسا لگ رہاہے کہ حکومت کو عام آدمی کے ان مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ عوام کو یہ امید بھی نہیں دلائی جارہی ہے کہ آج نہیں تو کل قیمتیں کم ہوں گی اورا نہیں راحت ملے گی۔ اس کے برعکس حکمراں جماعت سے وابستہ لیڈران یہ دلیل دے رہے ہیں کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ لیکن حقیقت میں تیل کی قیمتوں پر جنگ کا کوئی اثر نہیں ہے۔بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں قدرے کمی آئی ہے۔دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے پابندی جھیلنے والے روس نے ہندوستان کو جنگ سے قبل کی قیمت سے بھی ارزاں شرح پر تیل دینے کی پیشکش ہے۔ ہندوستان پہلے سے ہی روس سے تیل حاصل کررہاہے، اب اس نئی پیشکش کے بعد تیل کی قیمت میں فی بیرل35ڈالر کی مزید کمی آنے والی ہے۔ لیکن گزشتہ 10دنوں میں ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 9 بار اضافہ ہوا ہے۔یہ اضافہ کبھی 70 پیسے تو کبھی 80 پیسے تھالیکن مجموعی طورپر تیل کی قیمت میں آج 7روپے فی لیٹرکا اضافہ ہوگیا ہے۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ روزانہ اضافہ ایک ماہ میں عام آدمی کی جیب پر کتنا بھاری پڑ رہاہے۔حال کے دنوں میں ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم نے اپنے جلسوں میں عوام کا ہمدر د بن کر مہنگائی کو قابو میں کرنے کی یقین دہائی کرائی تھی لیکن انتخاب ختم ہونے اور چار ریاستوں میں حکومت بنانے کے ساتھ ہی عوام سے ہمدردی بھی ختم ہوگئی ہے۔
ایک جمہوری فلاحی ریاست میں عوام کیلئے باوقارزندگی کے وسائل مہیا کرنا اور روزمرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں کو عوام کی رسائی میں رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے مفاد کی حفاظت میں سرگرم رہنے والی حکومت کو عام آدمی کے دکھوں کا بھی مستقل مداواڈھونڈنا چاہیے۔پانچ کلو اناج اور کسانوں کو 2 ہزار روپے سالانہ دینا نہ تو مہنگائی کا حل ہے اور نہ ہی اس سے بے روزگاری کے عفریت کو قابو میں کیاجاسکتاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS