یکساں سول کوڈ کی پہلی لیباریٹری بننے جا رہا ہے اتراکھنڈ

0

محمد حنیف خان
تنوع ہماری شناخت ہے، اس کے بغیر ملک کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی،تنوع سے محبت ہی در اصل ملک سے محبت ہے،کیونکہ جس شخص /حکومت میں یہ مادہ ہوکہ وہ نہ صرف تنوع کی حفاظت کرے بلکہ اس تنوع کو فروغ دیتے ہوئے اس میں ہی ملک کی خوشنمائی دیکھے وہی حکومت ملک کے لیے مفید ہے۔یہ تنوع کئی سطحوں پر ہے ۔مذہب اس کی سب سے پہلی بنیاد ہے،جس کی آزادی ہر فرد وطبقہ کو آئین سے ملی ہوئی ہے،اسی طرح آئین نے ہر فرد اور طبقہ کو اپنی تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھنے کی بھی اجازت دی ہے۔ دراصل تہذیب و ثقافت کی ابتدائی شکل رسم و رواج ہیں جو متعلقہ سماج میں ضابطہ اور قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان رسوم و رواج کو ملکی قوانین کے متوازی کبھی نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں حکومت اور متعلقہ معاشرہ ایک دوسرے کے مقابل آجاتے ہیں،جس سے فائدہ کے بجائے صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔ مذہبی قوانین اور معاشرتی رسوم و رواج ہر طبقہ و فرد کے الگ الگ ہوسکتے ہیں،جن کے مطابق زندگی گزارنے کا حق انسان کو خود آئین نے دیا ہے ۔جب ہر فرد اور طبقہ اپنے مذہبی قوانین اور معاشرتی اصول و ضوابط(رسم و رواج) کے مطابق زندگی گزارے گا تو اس سے ملک میں تنوع پیدا ہوگا۔کسی بھی طبقہ یا فرد اور حکومت کو کسی کے مذہبی اور معاشرتی اصول و ضوابط (مذہبی قوانین اور رسم و رواج)سے نہ تو مطلب رکھنا چاہیے اور نہ اس سے چھیڑ چھاڑکی کوشش کرنی چاہیے ۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے خواہ وہ فرد ہو یاطبقہ یا حکومت دراصل وہ ایک طرف تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ملک کے تنوع اور اس کی خوبصورتی کو ختم کرنے کی طرف وہ قدم بڑھاتا ہے۔
اتراکھنڈ کی بی جے پی یونٹ نے الیکشن سے قبل اپنے ’سنکلپ پتر‘جسے عزائم نامہ کہنا چاہیے، میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اگر بی جے پی دو بارہ اقتدار میں آتی ہے تو وہ ریاست میں یکساں سول کوڈ نافذ کردے گی۔اس سلسلہ میں نومنتخب حکومت نے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے۔ مسودے کی ڈرافٹنگ اورسفارشات کے بعد ریاست میں اسے نافذ کیے جانے کا منصوبہ ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملک کے عوام کے لیے حد درجہ خطرناک اور نقصان دہ ہوگا۔ یکساں سول کوڈ کی ہمیشہ سے مخالفت ہوتی آئی ہے۔ جب ہر ایک کا مذہب اور کلچر الگ الگ ہے تو پھر یکساں سول کوڈ کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟کیسے کسی کی تہذیب و ثقافت کو قانونی طورپر ختم کیا جاسکتا ہے؟اس کی مخالفت کی بنا پر ہی اب تک ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ نہیں ہوسکا۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب مرکزی حکومت کے بجائے یکساں سول کوڈ کا نفاذ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ کرایا جائے گا۔چونکہ اگر مرکز ایسا قدم اٹھاتا تو ایک ساتھ پورے ملک میں اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگتیں، اس لیے مرکزی حکومت نے یہ قدم نہ اٹھا کر پارٹی کی ریاستی یونٹ کو یہ ذمہ داری دی۔چونکہ ہماری یہ عادت رہی ہے کہ جب تک افتاد خود ہمارے سروں پر نہ آئے اس وقت تک ہم بیدار نہیں ہوتے،اسی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور یکساں سول کوڈ کو ریاستی حکومت کے ذریعہ لایا جا رہا ہے۔چونکہ اتراکھنڈ میں مسلم اقلیت میں ہیں،اسی طرح قبائلی اور دوسری ذاتیں بھی اقلیت ہی کا درجہ رکھتی ہیں،جس کی وجہ سے یہاں حکومت کو کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن اس کا نقصان یہ ہوگا کہ دھیرے دھیرے اس ماڈل کو دوسری ریاستوں میں بھی اختیار کیا جانے لگے گا جیسا کہ قانون تبدیلی مذہب کے سلسلہ میں ہوا۔مذہب کی تبدیلی سے متعلق قوانین موجود ہیں، اس کے باوجود اب تک تقریباً دس ریاستوں میں قانون بن چکا ہے۔اس کا مقصد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، بالکل اسی طرز پر یکساں سول کوڈ بھی لائے جانے کی تیاری ہے۔
اس سلسلے میں آر ایس ایس کا سرگرم ہونا قابل دید ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ یکساں سول کوڈ جلد ہی پورے ملک میں نافذ ہو، وہ اس کی رفتارکو کم نہیں کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے سامنے اس وقت سب سے بڑی پریشانی وہ قبائل ہیں جن کا طریقہ عبادت،تجہیز و تکفین اور شادی و بیاہ کی رسمیں بہت مختلف ہیں لیکن چونکہ اس کا ایک بڑا طبقہ اس تنظیم سے وابستہ ہے جسے وہ ناراض نہیں کرنا چاہتی ہے، اس لیے وہ عام رضا مندی کی بات کہہ رہی ہے، اس کا کہنا ہے کہ پہلے ان رسوم و رواج کا خاتمہ کیا جانا چاہیے جن سے سماج پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔اس تنظیم کا کہنا ہے کہ قائمہ کمیٹی پہلے اپنی رپورٹ پیش کرے اس کے بعد ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ ہر مذہب و طبقہ کے الگ الگ قوانین کو مانتے ہوئے حکومت نہیں کی جا سکتی ہے، اس لیے یکساں سول کوڈ کی ضرورت ہے۔لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آر ایس ایس کو کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے،وہ تو ایک سماجی تنظیم ہے جس کا کام سماج میں اصلاحی امور کو انجام دینا ہے،اس کو حکومت کے کاموں میں دخل دینے کی ضرورت ہی نہیں لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ دراصل ’ڈیپ اسٹیٹ ‘ کی اصطلاح ایسے نظام کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں کوئی ایک فرد یا تنظیم اپنے لوگوں کو کسی نظام کا حصہ منصوبہ بند طریقے سے بنا کر اپنا کام نکالے یا حکومت کو اندر سے کھوکھلا کردے مگر اب یہاں ڈیپ اسٹیٹ کی اصطلاح کے ساتھ ایک دوسری اصطلاح کی بھی ضرورت پڑ گئی ہے جسے ’ اسٹیٹ آؤٹ آف اسٹیٹ‘کا نام دیا جانا چاہیے۔
اسٹیٹ آؤٹ آف اسٹیٹ میں کوئی فرد یا طبقہ حکومت سے باہر ہوتے ہوئے بھی پوری طرح سے نہ صرف اس پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اپنے اصول و ضوابط کے مطابق وہ حکومت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایسا کرے۔اس وقت یہی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔جو غیر آئینی افراد کے ہاتھوں میں آئینی ادارے یرغمال ہیں،اہم بات یہ ہے کہ جو آئینی فرد ہے اس کو غیر آئینی نے وہاں تک پہنچایا ہے اور جو آئینی ہے اس نے غیر آئینی کو اختیارات دے رکھے ہیں، اس طرح ڈیپ اسٹیٹ اور اسٹیٹ آؤٹ آف اسٹیٹ دونوں اصطلاحوں کے مطابق اس وقت ہندوستان میں کام ہو رہا ہے۔یکساں سول کوڈ کے اتراکھنڈ میں نفاذ کی کوشش بھی اسی اسٹیٹ آؤٹ آف اسٹیٹ کا نتیجہ ہے،کیونکہ اس تنظیم کی یہ برسوں کی خواہش رہی ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے،اس لیے یہ کوشش شروع کی گئی ہے کہ اسے ریاستوں کے ذریعہ لایا جائے اور دھیرے دھیرے پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔ اس ضمن میں سب پہلا نشانہ مسلمان ہیں کیونکہ عائلی قوانین میں مسلم پرسنل لاء کو اہمیت حاصل ہے جو آئینی ہے۔ شادی بیاہ، طلاق اور وراثت سے لے کر متعدد ایسے معاملات ہیں جن میں فیصلہ عام قانون کے بجائے پرسنل لاء کے مطابق ہوتا ہے اور ان لوگوں کو اسی پرسنل لاء سے پریشانی ہے۔جسے ختم کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ لایا جارہا ہے۔اسی طرح سے اتراکھنڈ کے قبائلیوں کے لیے بھی یہ قانون ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگا کیونکہ آر ایس ایس اس کے ذریعہ ایک تیر سے دو نشانے لگا رہی ہے۔ایک طرف جہاں اس سے مسلم پرسنل لاء پر ضرب لگے گی، وہیں دوسری طرف اس کے ذریعہ قبائلیوں کو ہندو شناخت دینے میں بھی وہ کامیاب ہوجائے گی جو اصل ہندو نہیں ہیں۔اس کا تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی دوسری ریاستوں کے لیے نظیر بن جائے گی اور پھر پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کی راہیں کھل جائیں گی۔
ان حالات میں مسلم پرسنل لاء کے ساتھ ہی وہ سماجی و ثقافتی ادارے جن کو آئین میں یقین ہے،جو ملک کے تنوع میں ہی اس کی خوبصورتی دیکھتے ہیں اور انسان کی آزادی کے علمبردار ہیں، ان کو اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت کے اس منصوبے کی مخالفت کرنا چاہیے تاکہ ملک کی خوبصورتی اور اس کے تنوع کو بچایا جا سکے۔اسی طرح جس طرح ڈی اسٹیٹ کو کسی بھی معاشرے میںقبول نہیں کیا گیا اور اس کی ہر ملک اور ہر خطے میں مخالفت کی گئی بالکل اسی طرح اسٹیٹ آؤٹ آف اسٹیٹ کو بھی قبول نہیں کیا جانا چاہیے ۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ پردے کے پیچھے کٹھ پتلی کو نچانے والاکوئی اور ہوتا ہے جس کے ہاتھوں کو ہم نہیں دیکھ پاتے ہیں لیکن یہاں بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے، اس لیے اس کا خاتمہ بھی ضروری ہے تاکہ ریاست کسی آمر گروہ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہ جائے کیونکہ ایسی صورت میں یکساں سول کوڈ جیسے قوانین کے نفاذ کی اندر اور باہر ہر جگہ سے کوششیں شروع ہوجاتی ہیں جو آئین کے خلاف بھی ہوتا ہے اور حقوق انسانی کی بھی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS