مہاجرین کی بڑھتی تعداد باعث تشویش!

0

جنگ سے مسئلوں کے حل کی تلاش کی جاتی رہی ہے مگر جنگ خود مسئلوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی وجہ سے ملک تباہ ہوتے ہیں، انسان ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں، انہیں گھربار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود جنگیں ہوتی رہی ہیں، جنگ ہو رہی ہے۔ ہر جنگ کے لیے جواز پیش کیا جاتا ہے، یوکرین جنگ بھی بلاجواز نہیں لڑی جا رہی ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ جواز صحیح ہو یا غلط، جنگ سے وہ لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، جو پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے تھے مگر حالات نے انہیں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھنے، انسانی چیخیں سننے، اپنوں کو تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے اور اسی لیے وہ جائے پناہ کی تلاش میں یوکرین کو چھوڑ رہے ہیں۔ ابھی تک یوکرین کے 2 فیصد لوگوں کے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے کی اطلاع ہے یعنی جنگ نے یوکرین کے ہر 50 میں سے ایک آدمی کو مہاجر بنا دیا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ آنے والے وقت میں صورتحال اور کتنی خراب ہوگی۔
یوکرین کے مہاجرین میں سے 53.7 فیصد کو پولینڈ، 12 فیصد کو ہنگری، 8.5 فیصد کو مالڈووا، 7.5 فیصد کو سلوواکیہ، 4.7 فیصد کو رومانیہ اور بقیہ کو دیگر یوروپی ممالک نے پناہ دی ہے۔ افغان اور عراق جنگوں کی وجہ سے مہاجر بننے والے لوگوں کو جائے پناہ دینے میں دو تین یوروپی ملکوں کو چھوڑ دیا جائے تو باقی کے یوروپی ملکوں نے زیادہ فراخ دلی نہیں دکھائی تھی۔ لیبیا اور شام کی خانہ جنگی سے تو ایک سے زیادہ یوروپی ملکوں نے دلچسپی لی مگر ان ملکوں کے مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں وہ پچھلی صف میں کھڑے رہے۔ ’اسٹے ٹسٹا‘ کی رپورٹ کے مطابق، شام کے سب سے زیادہ مہاجرین کو ترکی نے پناہ دے رکھی ہے، وہاں 3,685,839 شامی مہاجرین ہیں۔ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں لبنان دوسرے نمبر پر ہے، وہاں 851,718 شامی مہاجرین ہیں۔ تیسرے نمبر پر اردن اور چوتھے نمبر پر جرمنی ہے، وہاں بالترتیب 668,332 اور 616,325 شامی مہاجرین ہیں۔ پانچویں نمبر پر عراق ہے، وہاں 345,952 شامی مہاجرین ہیں یعنی شامی مہاجرین کو پناہ دینے والے ٹاپ 5 ملکوں میں ایک ہی یوروپ کا ملک ہے۔ افغان مہاجرین کی بات کی جائے تو پاکستان میں 1,438,000، ایران میں 780,000، جرمنی میں 148,000، آسٹریا میں 40,000، فرانس میں 32,000، سویڈن میں 30,000، آسٹریلیا میں 11,000، برطانیہ میں 9,000 افغان مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ملکوں نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، ان کے لیڈران انسانیت کی باتیں بہت کرتے ہیں مگر بات انسانیت دکھانے کی آتی ہے تو زیادہ فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اگر کرتے تو صورتحال یہ نہ ہوتی کہ جرمنی، آسٹریا، فرانس، سویڈن اور برطانیہ میں جتنے افغان مہاجرین ہیں، ان سے تین گنا افغان مہاجرین ایران میں نہ ہوتے۔ اقتصادی طور پر دنیا کے ٹاپ 8 ملکوں میں سے4 ملک، جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی یوروپ کے ہیں مگر مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں ٹاپ 8 ملکوں میں یوروپ کا ایک ہی ملک جرمنی ہے۔ اس معاملے میں ترکی پہلے، کولمبیا دوسرے نمبر پر ہے۔ وہاں بالترتیب 36,96,831 اور 17,43,311 مہاجرین ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر یوگانڈا اور چوتھے نمبر پر پاکستان ہے، وہاں بالترتیب 14,75,311 اور 14,38,523 مہاجرین ہیں۔ جرمنی پانچویں نمبر پر ہے۔ وہاں 12,35,160 مہاجرین ہیں۔ چھٹے، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر سوڈان، بنگلہ دیش اور لبنان ہے۔ سوڈان میں 10,68,339، بنگلہ دیش میں 8,89,775 اور لبنان میں 8,56,758 مہاجرین ہیں۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انسانیت کی سب سے زیادہ باتیں کرنے والے اور غیر یوروپی علاقوں میں جنگ کے لیے تیار رہنے والے یوروپی لیڈران جنگ سے متاثرہ لوگوں کو پناہ دینے کے معاملے میں کافی پیچھے ہیں۔ یوکرینی مہاجرین کو غالباً اس لیے آسانی سے یوروپی ملکوں میں پناہ مل رہی ہے،کیونکہ یوکرین بھی یوروپ میں ہی ہے۔ یوکرینی مہاجرین کے لیے یوروپی لیڈروں کی فراخ دلی قابل تعریف ہے مگر ایسا وہ سبھی مہاجرین کے لیے کرتے تو یہ سوال نہیں اٹھتا کہ کیا انسانوں کو دیکھنے کا ان کا پیمانہ ایک نہیں ہے اور کیا اسی وجہ سے دنیا کے سبھی جنگ سے متاثرہ ملکوں کے مہاجرین کے لیے وہ ایک سی فراخ دلی نہیں دکھاتے؟
خیر، یوکرین کی جنگ ختم ہونی چاہیے۔ یوکرینی مہاجرین کی بڑھتی تعداد اس لیے بھی باعث تشویش ہے، کیونکہ خانہ جنگی اورجنگوں کی وجہ سے پہلے ہی مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS