یک قطبی نظام کے خلاف مزاحمت

0

شاہنواز احمد صدیقی
چین اور روس کے سربراہان کی فروری کے اوائل میں ملاقات میں ایک غیرمعمولی چار نکاتی بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے موجودہ عالمی نظام کو یکسر بدلنے اور دنیا کو ایک قطبی نظام سے نجات دلانے کی بات کہی ہے۔ ان دونوں لیڈروں روسی صدر ویلادیمیرپوتن اور چین کے صدر زیانگ جی پن نے مغربی ممالک کے رویہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ تمام بین الاقوامی ایشوز کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھنے اور حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان دونوں لیڈروںنے عالمی برادری کو آگاہ کیا کہ یہ صورت، تضادات، اختلافات اور تصادم کو فروغ دے رہی ہے۔ مغربی حلقوں میں اس بیان کو لے کر گفتگو ہورہی ہے۔ بطور خاص امریکہ کے نقطہ نظر اوراس کی پالیسیوں کی نکتہ چینی ہورہی ہے۔ ایک بڑے اور بااثر طبقہ کی رائے ہے کہ امریکہ اس بابت دوہرے معیارات استعمال کر رہا ہے۔ فلسطین اور یوکرین کے معاملہ میں اگرچہ یہ بات سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آرہی ہے کیونکہ یورپ دنیا ان دونوں مقامات پر صورت حال پر گہری نظر سے دیکھ رہی ہے۔ یوکرین میں روسی افواج کی بربریت افسوسناک اور شرمناک ہے مگر اس سے بھی زیادہ شرمناک ارض فلسطین پر اسرائیل کی بربریت ہے جس کو امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔ نابالغ بچوں، عورتوں و بوڑھوں کو بے دریغ پیٹا جارہا ہے اور جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔رمضان کے دوسرے جمعہ کو آج بیت المقدس میں جو ہوا وہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت مگراسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں پر کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ افریقی ممالک میں یک قطبی نظام کی چوٹ زیادہ شدت سے محسوس ہورہی ہے کیونکہ ہر اعتبار سے وسائل سے مالامال براعظم کو بڑی طاقتوں نے اپنا کھیل کا میدان بنا رکھا ہے۔ قبائلی ، لسانی اور مذہبی منافرت کا فائدہ اٹھا کر لوٹ کھسوٹ کی جارہی ہے۔ بین الاقوامی امور میں اس خطے کو بالکل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ افریقہ کئی خوشحال اور مستحکم ممالک میں یکطرفہ کارروائی کرکے اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے اور ان ممالک میں اب حالات اس قدر قابو سے باہر ہوگئے ہیں کہ اقوام متحدہ کی منظورشدہ اور حمایت یافتہ عبوری حکومت اس قدر بری طرح اقتدار سے لپٹ گئی ہیں کہ وہ الیکشن کرانے میں ہی آنا کانی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر لیبیا میں تیونس میں بھی عدم استحکام ہے ۔ سوڈان کے دوٹکڑے ہوگئے ہیں ایتھوپیا کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہاں شمالی علاقوں میں مذہبی عفونت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب خارجی مداخلت کا نتیجہ ہے۔
وہاں کے تیل کے ذخائر میں ہر طبقہ کے لئے متحارب سرکاری اداروں نے فوجی طاقت کے ذریعہ قبضہ جما لیا ہے اور دونوں نے اپنے اپنے سینٹرل بینک قائم کرلئے ہیں۔ اندازہ لگایئے کہ لیبیا وہ ملک ہے جو پورے افریقہ کو قیادت فراہم کر رہا تھا۔ ’ عرب ، بہاریہ‘ سے قبل افریقی یونین کے ذریعہ خارجی عناصر کی مداخلت کو روک دیا۔ اقتصادی امور میں بھی ایسا نظام قائم ہوگیا تھا جو غیرملکی امداد اور امداد کے جھانسہ میں مداخلت کو کنٹرول کر رہا تھا۔ افریقی ممالک میں جنگ، قبائلی اختلافات کو ختم کرنے میں افریقی یونین کی قیادت بغیر کسی لالچ و خوف کے ہی مصالحت کر رہی تھی اور قیام امن کے لئے امن افواج بھی تعینات کر رہی تھی۔ مگر آج مغرب کی بے جا قیادت کے سبب اس ملک میں کشت وخون کا بازار گرم ہے۔ (ملاحظہ کریں باکس……لیبیا میں دو قطبی نظام)
سال رواں میں افریقی یونین (اے یو) کے 35 ویںاجلاس میں ایتھوپیا کے جواں سال وزیراعظم ابی احمد نے کہا کہ براعظم افریقہ کو اقوام متحدہ میں اور زیادہ بڑا رول ملنا چاہئے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افریقہ سے اس طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہوں۔ اس سے قبل 2005 میں مملکت اسواتینی Kingdom of Eswatini کے شہر ایزلوینی (Ezulvini) میں افریقی یونین کے اجلاس میں افریقی ممالک کو زیادہ بااختیار بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس قرارداد کو ایزلوینی اتفاق رائے (EzuliviniConsensus) کہا گیا تھا۔دنیا کی تمام پانچ بڑی طاقتیں مسلسل اپنے مفادات کو آگے رکھ کر کام کرتی ہیں اور روس اور چین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ میں میانمار میں فوجی انقلاب اور تختہ پلٹ کی مذمت کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد کو چین نے ویٹو کر دیا تھا اور اس سے قبل روس 2011 سے لے کر 2019 تک اقوام متحدہ کی 14قراردادوںکو ویٹو کرتا رہا ہے۔ یہ 14قراردادیں شام میں خانہ جنگی کو لے کر پیش کی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ میں ویٹو کی حاصل طاقتیں صرف اور صرف اپنے مفادات کی پروا کرتی ہیں۔انسانی حقوق کے معاملہ میں آوازیں تب ہی بلند ہوتی ہیں جب ان کے مفادات کو چوٹ پہنچتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی)سے معطل کرنے والی قرار داد پر زیادہ تر افریقی ممالک غیر حاضر رہے۔ جیسے جنوبی افریقہ غیر حاضر رہا مگر ایتھوپیا نے اس قرار داد کے خلاف ہی ووٹ دیا۔
غرض افریقہ میں عالمی طاقتوں اور بیرونی مداخلت سے سخت ناراضگی ہے۔ فرا نس نے ہمیشہ مالے اور دیگر پڑوسی ممالک میں انسانی حقوق کے نام پر جو اپنی مداخلت کو حق بجانب قرار دینے کی مگر اب فرانس کی مداخلت کو زیادہ سے زیادہ ممالک برا سمجھ رہے ہیں اور اپنے اقتدار اعلیٰ کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح زمباوے پر امریکی پابندیاں تو درست ہیں مگر یوگانڈا میں امریکہ مکمل حمایت دے رہاہے۔ مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ناراضگی ارض فلسطین پر اسرائیل کی خونخوار پالیسیوں پر ہے جہاں ہر روز فلسطینی مار ے جارہیں ، ان کے گھروں سے اجاڑا جارہا ہے اور انسانی حقوق کے علمبردار دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS