غلام نبی آزاد کا استعفیٰ

0

مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے دو بار صدر منتخب ہوئے تھے اور کم وبیش ایک دہائی تک انہوں نے اس پارٹی کی قیادت کی تھی۔ کانگریسی لیڈروں میں وہ واحد ایسے شخص تھے جو ہندو -مسلم اتحاد کی قیمت پر کوئی بھی سودا قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ متحدہ قومیت اور ملی جلی تہذیب کااستحکام ان کی شدید آرزو تھی لیکن وہ سیاست کے تلون آشنابھی تھے ۔انہوں نے ایک معرکتہ الآرا جملہ کہاتھا کہ ’ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا‘ ۔ طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود اس جملہ کی صداقت آج تک حرف بہ حرف ثابت ہوتی آرہی ہے ۔ اس صداقت کو ثابت کرنے میں کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کے پارٹی کے لیڈران پیش پیش ہیں۔ 2014میں کانگریس جیسے ہی حکومت سے بے دخل ہوئی درجنوں سینئر اور تجربہ کار کانگریس لیڈروں نے اخلاق، مروت، وفا کا دامن جھڑکتے ہوئے پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کردی جنہیں اقتدار کی زیادہ ہی ہوس تھی وہ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کی غلامی کا طوق گلے میں لٹکائے اقتدار کے جھولے پر بیٹھ گئے او ر جنہیں اپنی قیادت و سیادت پر ناز تھا انہوں نے الگ راہ اپنالی اور گم گشتہ منزل ہوگئے،لیکن ان سب ہی نے یہ ثابت کردیاکہ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا اور موقع پرستی ہی عین سیاست ہے ۔
ان ہی موقع پرست لیڈروں میں آج غلام نبی آزاد نے بھی اپنا نام درج کرالیا ہے۔ انہوں نے کانگریس کے تمام عہدوں اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی میں ان کی عزت نہیں ہورہی تھی اس لئے وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے پانچ صفحات کے استعفیٰ نامہ میں موصوف نے سونیاگاندھی کی قیادت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ 2014سے2022تک 49اسمبلی انتخابات ہوئے جن میں39میں پارٹی کو ہار کا سامنا کرناپڑا۔آپ (سونیاگاندھی) صرف نام کی صدر ہیں ۔ کانگریس کے تمام فیصلے راہل گاندھی ، ان کے سیکورٹی گارڈس اور ان کے پی اے لے رہے ہیں۔اپنی موقع پرستی کا سارا غبار راہل گاندھی پرنکالتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کانگریس کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار راہل گاندھی ہیں جنہوں نے پارٹی کے مشاورتی نظام کو ختم کرکے من مانی شروع کردی اور سینئر لیڈروں کو حاشیہ پر پہنچادیا ہے ۔پارٹی میں ان کی (غلام نبی آزادکی ) بے عزتی ہورہی تھی اس لئے وہ استعفیٰ دے رہے ہیں ۔
پارٹی میں انہیں کس عزت کی تلاش تھی یہ تو وہی بتاپائیں گے لیکن انہوں نے استعفیٰ دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ سیاست کے سینہ میںدل نہیں ہوتا،نہ مروت ہوتی ہے اور نہ سیاست کی گلیوں میں وفا کا ہی کوئی چلن ہے۔73سال کے غلام نبی آزاد کو کانگریس نے سب سے زیادہ عزت بخشی تھی ۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کا عہدہ انہیں کانگریس نے ہی دیاتھا، کئی بار لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن رہے، مرکزی حکومت میں کئی بار وزیر رہے، راجیہ سبھا میں کانگریس نے ہی انہیںاپوزیشن لیڈر بنایا تھا۔ پارٹی میں وہ کلیدی عہدے پر رہے، پارٹی کی کئی تنظیمی اکائیوں کی سربراہی بھی ان کے پاس تھی ۔اس کے باوجود انہوں نے ’ عزت‘ کی تلاش میں پارٹی چھوڑ دی ہے ۔
وزیرداخلہ امت شاہ کے کشمیر دورہ کے دوسرے ہی دن غلام نبی آزا د کا استعفیٰ ان شبہات کو تقویت دے رہا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتاپارٹی میں بھی شامل ہوسکتے ہیں، لیکن انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اپنی الگ پارٹی بنائیں گے۔ گزشتہ سال دسمبرمیں کانگریس کے باغی گروپ جی23-کے اجلاس کے موقع پرا نہوں نے کانگریس نہ چھوڑنے کا بھی عہد کیاتھا لیکن آج وہ کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔ اب وہ اپنی الگ پارٹی بناتے ہیں یا نہیںیہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ جموں و کشمیر میں اگلے چند مہینوں کے دوران ہونے والے اسمبلی انتخاب میں وہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی راہ ہموار کرنے کا کام ضرور کریں گے ۔جموں و کشمیر میں 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بدلے ہوئے حالات میںپہلی بار ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان پہلے ہی تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔گپ کر الائنس ٹوٹنے کی کگار پر ہے۔ ایسے میں غلام نبی آزا د اگر اپنی پارٹی بناتے ہیں تو ان کی پارٹی اسمبلی انتخاب میں بھی اترے گی اور ریاست کے سیاسی مساوات کو متاثر کرے گی۔ کھلے لفظوں میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان کی پارٹی عملاً بی جے پی کا اٹینڈنٹ بن کر ریاست میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی سب سے بڑی وجہ بنے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی قیمت کے طور پرا نہیں بی جے پی کسی عہدہ سے نوازدے لیکن جس ’عزت‘ کی تلاش میں انہوں نے کانگریس کا دامن جھٹکا ہے وہ ’ عزت ‘ انہیں کہیں نہیں مل سکتی ہے۔تاہم انہوں نے مولانا آزاد کے قول کی صداقت ثابت کردی ہے کہ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا،نہ مروت و وفاہی سیاست کا مزاج ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS