پیگاسس میں کچھ نہیں ملا

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

اسرائیل سے 500 کروڑ میں خریدے گئے پیگاسس نامی جاسوسی آلے کی جانچ میں کچھ نہیں ملا۔ ہندوستانی حکومت پر یہ الزام تھا کہ اس آلے کے ذریعہ وہ ہندوستان کے تقریباً 300 سیاستدانوں، سرمایہ داروں، صحافیوں اور ہندوستان کے اہم شہریوں کی جاسوسی کرتی ہے۔ یہ خبر جیسے ہی ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہوئی ہندوستان میں ایک طوفان سے آگیا۔ پارلیمنٹ ٹھپ ہو گئی، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ہنگامہ مچنے لگا اور حکومت حیرت زدہ رہ گئی۔ حکومت کی گھگی ایسی بندھی کہ اس خبر کونہ اس سے نگلتے بن رہا تھا اور نہ اْگلتے۔ نہ تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے بولی نہ ہی عدالت کے سامنے۔ اس نے بس ایک ہی بات بار بار دہرائی کہ یہ ہندوستان کی سلامتی کا معاملہ ہے، خفیہ ہے۔اگر عدالت کہے تو وہ انکوائری بٹھاسکتی ہے کہ کیا دہشت گردوں، مجرموں اور اسمگلروں کے علاوہ بھی کہیں شہریوں پر یہ نگرانی رکھتی جاتی ہے؟ عدالت نے حکومت کو یہ موقع دینے کے بجائے خود ہی اس جاسوسی آلے پر جانچ بٹھادی۔ جانچ کمیٹی میں تین ماہرین رکھے گئے اور اس کی صدارت ایک ریٹائرڈ جج نے کی۔ وہ کمیٹی توبہت اہل اور غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل تھی، لیکن اب اس نے اپنی طویل رپورٹ تین حصوں میں پیش کی تو ملک میں پھر ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے، کیونکہ ہندوستان کے چیف جسٹس این وی رمن نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کے اہم نکات کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس جانچ میں حکومت نے بالکل تعاون نہیں کیا ہے۔ حکومت کا جو رویہ عدالت کے سامنے تھا، وہی جانچ کمیٹی کے سامنے بھی رہا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جو رویہ حکومت کا رہا ہے، وہی رویہ ان زیادہ تر لوگوں کا بھی رہا ہے، جن 300لوگوں کے موبائل فونوں کی جانچ ہونی تھی۔ 300میں سے صرف 29لوگوں نے جانچ کے لئے فون دیے۔ باقی لوگ چپی مار گئے یعنی جو شور مچاتھا، وہ ہوائی تھا۔ ان 29فونوں کی تکنیکی جانچ سے ماہرین کو معلوم پڑا کہ ان میں سے ایک پر بھی پیگاسس کے جاسوسی آلے کی نگرانی نہیں تھی۔ صرف پانچ فونوں پر میگاویئر پایا گیا۔ یعنی پیگاسس کو لے کر صرف شور مچایا جارہا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو حکومت نے اس کمیٹی کے ساتھ کھل کر مدد کیوں نہیں کی؟ اس کا مطلب دل میں کچھ کالا ہے لیکن جن لوگوں کو اپنی نگرانی کا شک ہے، ان کی دال ہی کالی معلوم پڑرہی ہے۔ پہلے تو 300میں سے صرف 29لوگ ہی جانچ کے لئے آگے آئے اور ان 29نے بھی کہہ دیا کہ ان کے نام ظاہرنہیں کئے جائیں۔اس کا مطلب کیا ہوا؟کیا یہ نہیں کہ حکومت سے بھی زیادہ ہمارے لیڈران، دولت مند، صحافی اور دیگر لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ حکومت اپنے ناجائز کارناموں کو چھپانا چاہتی ہے تو یہ ملک کے اہم لوگ اپنے کالے کارناموں پر پردہ ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کوئی غیرقانونی یا غیر اخلاقی کام نہیں کررہے ہیں تو آپ کو اسے چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر بھی شہریوں کی ذاتی زندگی اور آزادی کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت کے ذریعہ کی جارہی جاسوسی بے لگام نہ ہو۔ ریاست کی اچھی صحت کے لئے جاسوسی کڑوی دوا کی طرح ہے لیکن اسے روزمرہ کی خوراک بنا لینا مناسب نہیں ہے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS