استعفیٰ دینا وائس چانسلر کے ضمیر پر منحصر:قربان علی

0

نئی دہلی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائس چانسلر طارق منصور اور رجسٹرار کی لاپروائیوں اور پولیس بربریت کے خلاف رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں سینئر صحافی قربان علی نے بھی وائس چانسلر اور اے ایم یو انتظامیہ کی سخت تنقید کی ہے۔قربان علی نے کہا کہ میرے طالب علمی کے زمانے تقریباً 40برس قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء کا احتجاج چل رہا تھا۔ اس وقت اے ایم یو کے وائس چانسلر سید حامد تھے ، پولیس اے ایم یو احاطے میں داخل ہوئی تھی اور گولی چلی تھی ،جس میں میرٹھ کے رہنے والے آفتاب نام کے طالب علم کی موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اے ایم یو میں پولیس نہ آئی اور نہ ہی کسی وائس چانسلر کے ذریعہ بلائی گئی۔ اے ایم یو میں پولیس کی ایک حد مقرر ہے۔ پولیس مین گیٹ تک رہتی ہے ، اس کے آگے نہیں بڑھ سکتی۔لیکن یہاں وائس چانسلر اور رجسٹرار کا یہ اعتراف کرنا کہ انہوں نے پولیس کو بلایا ہے ، یہ بہت ہی شرمنا ک بات ہے۔ جمہوریت میں شہریوں کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق ملک کے آئین نے شہریوں کو دیا ہے۔ استعفیٰ دیے جانے کے ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ یہ ان کے ضمیر پر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اے ایم یو کی 100سالہ تاریخ رہی ہے۔ 1920میں جب یونیورسٹی بنی ،اسی سال گاندھی جی کو مدعو کیا گیا تھا، اور مولانا محمد علی جوہر نے انہیں آنے کی دعوت دی تھی، اور مستقل احتجاج ہورہے تھے۔جس میں کئی بڑے نام شامل تھے اور وہ اے ایم یو کے طالب علم رہے ہیں۔ان میں ذاکر حسین جیسا بڑا نام شامل ہے، جو ملک کے صدر جمہوریہ رہے۔ وہ بھی احتجاج میں شامل تھے۔جب ان لوگوں کا اخراج کیا گیا تو ان لوگوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو قائم کیا ، جامعہ پہلے علی گڑھ میں قائم ہوااور بعد میں دہلی میں جامعہ کا قیام عمل میں آیا۔ ان تمام واقعات کے پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ احتجاج کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔اے ایم یو کی 100سالہ اور آزاد ہندوستان کی تاریخ میں احتجاج ہوتا رہا ہے، اور اس میں طلباءنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ لیکن کسی بھی وائس چانسلر نے طلبا پر پابندی نہیں لگائی۔ اس لیے طلبا پر پابندی مناسب نہیں ہے۔ انہی وجوہات کے سبب وائس چانسلر اور انتظامیہ کے کردارپر سوال اٹھ رہے ہیں، یہ ہر لحاظ سے غلط ہے اور اس کی پر زور مذمت کی جانی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی کاروائی نہایت ہی غلط تھی۔ طلبا احتجاج کررہے تھے، کوئی جرم نہیں کررہے تھے، کسی کو مارپیٹ نہیں رہے تھے ، املاک نہیں جلا رہے تھے۔وہ اپنے احاطے میں احتجاج کررہے تھے جو ان کا قانونی اور آئینی حق ہے۔اے ایم یو انتظامیہ نے حکومت کے ایجنڈے کونافذ کیا ہے۔جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے، وہاں پرسکون احتجاج ہوا ہے۔مرکزی حکومت جو قانون لے کرآئی ہے، وہ جمہوریت کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ طلبا کو پولیس سے پٹوانے کا کام کیا گیا ہے۔ اور بہت بری طریقے سے طلبا کی پٹائی کی گئی۔ جسے جاکر ہرش مندر نے دیکھا اور آکر مضمون لکھا۔ ایسا ایمرجنسی میں بھی نہیں ہوا تھا ، یہ ایمرجنسی کی بھی انتہا ہے جب بچوں کے ہاتھ تک کٹوا دیے گئے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS