ریزرویشن بل:خواتین کے تحفظ کیلئے سنگ میل

0
خواتین کیلئے ریزرویشن قانون بننے کے بعد بھی فوری نفاذ ممکن نہیں

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
خواتین ریزرویشن بل کو پارلیمنٹ سے منظوری مل گئی ہے۔ راجیہ سبھا نے متفقہ طور پر آئینی ترمیم بھی منظور کر لی۔ نریندر مودی حکومت کے لیے یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ خواتین کو ریزرویشن دینے اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے، 20 ستمبر 2023 کو لوک سبھا میں خواتین کے ریزرویشن بل کو پاس کیا گیا تھا۔ بل کے حق میں 454 ووٹ ڈالے گئے جبکہ دو ارکان پارلیمنٹ نے اس کی مخالفت کی۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں کارروائی کے پہلے ہی دن وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے خواتین ریزرویشن بل پیش کیا۔ اس بل میں خواتین کے لیے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں 33 فیصد ریزرویشن دینے کا انتظام ہے۔ دراصل کسی بھی قسم کی ریزرویشن تب ہوتی ہے جب وہ فریق کمزور ہو۔ ہندوستان کے آئین میں بھی مذکورہ ریزرویشن سماجی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دیا گیا۔ صحافت کے پچھلے 35 سالوں میں، میں نے خواتین کو بااختیار بنانے کا بڑا کام اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے۔کیونکہ انہیں ہندوستان میں سیاسی اور سماجی میدانوں میں عزت اور انصاف نہیں ملا۔ اس وجہ سے خواتین کی طاقت کو کمزور سمجھا جاتا تھا۔ یوروپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کے ریزرویشن کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ان ممالک میں خواتین کی سیاسی شرکت ہمیشہ مضبوط رہی ہے۔ شروع میں ہی یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ خواتین کے ریزرویشن پر ہمیشہ سیاست کی گئی ہے۔ نریندر مودی حکومت نے خواتین ریزرویشن بل منظور کر لیا ہے، جسے راجیہ سبھا نے فوری و متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے اور یہ 128 ویں آئینی ترمیمی بل ہے۔ اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے اسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا۔ حد بندی کے عمل کی تکمیل کے بعد، لوک سبھا، راجیہ سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد خواتین کا ریزرویشن موثر ہو جائے گا۔ آخر خواتین ریزرویشن بل کیا ہے اور اب تک کیا ہوا ہے؟ بل میں کہا گیا ہے کہ لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں اور قومی دارالحکومت علاقہ دہلی کی اسمبلی میں ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے 181 سیٹیں خواتین کے لیے ریزرو ہوں گی۔ لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں سیٹیں پہلے سے ہی درج فہرست ذاتوں (SC) اور درج فہرست قبائل (ST) کے لیے محفوظ ہیں۔ ان مخصوص نشستوں میں سے ایک تہائی اب خواتین کے لیے مختص ہوں گی،یعنی ریزرویشن کے اندر بھی ریزرویشن ہوگا۔ اس وقت لوک سبھا کی 131 سیٹیں ایس سی اور ایس ٹی کے لیے محفوظ ہیں۔ خواتین ریزرویشن بل کے قانون بننے کے بعد اب ان میں سے 43 سیٹیں خواتین کے لیے ریزرو ہو جائیں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین کے لیے مخصوص 181 نشستوں میں سے 138 ایسی ہوں گی ،جن پر کسی بھی ذات کی خواتین کو امیدوار بنایا جا سکتا ہے، یعنی ان نشستوں پر مرد امیدوار نہیں ہو سکتے۔ پھر بھی خواتین کے ریزرویشن کو نافذ کرنے میں کچھ رکاوٹیں ہو سکتی ہیں۔ خواتین ریزرویشن ایکٹ 2024 یا 2029 کب نافذ ہوگا؟ خواتین ریزرویشن ایکٹ پر بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے کہاکہ’’آج ہم خواتین کو انصاف دے رہے ہیں، بل پاس کر کے، ہم خواتین کو زیادہ بااختیار بنا رہے ہیں اور یہ بل پاس کرنے کا صحیح وقت ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے، اس بل کو پاس کرکے ہم جمہوریت کے سفر میں ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ ارجن رام میگھوال نے ایک نظم سنائی، ’’عورت طاقت آپ کی تعریف، سلام اور مبارک ہو، خواتین کی طاقت کا احترام بڑھے گا، خوابوں کو اب پنکھ ملیں گے، ہم مل کر کام کریں گے، ہمارا ملک ترقی کرے گا، دنیا کی قیادت کریں گے‘‘۔ 22 ستمبر 2017، 9 مارچ 2016 وغیرہ کو کئی بار بل پیش کیا گیا، لیکن اسے حمایت نہیں ملی۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ خواتین ریزرویشن بل منظور ہو گیا ہے اور خواتین کے حقوق کی طویل لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ امت شاہ نے کہاکہ ’’کچھ پارٹیوں کے لیے خواتین کو بااختیار بنانا ایک سیاسی ایجنڈا اور سیاسی مسئلہ ہو سکتا ہے، یہ نعرہ الیکشن جیتنے کا ہتھیار ہو سکتا ہے، لیکن میری پارٹی اور میرے لیڈر نریندر مودی کے لیے خواتین کو بااختیار بنانا کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ خواتین کے حقوق اور پہچان کا سوال ہے۔‘‘ ویدوں میں خواتین کو اہم مقام دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیامیںاس بل پر ایسا رول بنانا شروع کر دیاہے کہ اس بل کو الیکشن جیتنے کے لئے پاس کیا گیاہے، جبکہ یہ نافذ نہیں ہوگا اور یہ سب وہی لوگ کررہے ہیں، جو اس بل کی حمایت نہیں کرتے ہیں ،کیونکہ اس بل کے بارے میں ایک بات یہ ہے کہ ابھی جب تک نئی حد بندی ہوتی ہے تب تک اس پر عمل نہیں ہو گا۔
کچھ لوگ او بی سی اور مسلم ریزرویشن کی بھی بات کر رہے ہیں،جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک بار شری گنیش کرو،پھر دیکھو،کیو نکہ پی ایم نریندر مودی نے ’بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دیا تھا جو کا میاب ہوا۔ جس دن سے نریندر مودی نے وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا اور حکومت تشکیل دی ہے، اس دن سے خواتین کی حفاظت، احترام اور حکومت میںشراکت داری کے طور پر سانس اور روح دونوں بن گئی ہے۔ ’’کانگریس نے پانچ دہائیوں سے زیادہ حکومت کی کچھ نہیں کیا، لیکن نریندر مودی نے پہلے پانچ سالوں میں 11 کروڑ 72 لاکھ بیت الخلا بنائے،جس کے ذریعہ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو عزت اور بااختیار بنایا گیا۔ ایل پی جی کنکشن دیے گئے، تین کروڑ سے زیادہ ماؤں کو گھر دیے گئے۔‘‘ امت شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے کہا ہے کہ خواتین ریزرویشن بل میں او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) کے لیے کوٹہ ہونا چاہیے تھا۔
اس بل میں او بی سی ریزرویشن کو شامل کیا جائے۔ ہندوستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ریزرویشن ملنا چاہئے جو وہاں نہیں ہے،’’ راہل گاندھی نے کہاکہ ‘‘میرے مطابق اس بل میں ایک چیز ہے جس کی وجہ سے یہ نامکمل ہے۔ وہ ہے او بی سی ریزرویشن۔ ہندوستان میں خواتین کی بڑی آبادی کو اس ریزرویشن میں شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ راہل گاندھی نے کہاکہ ’’دو چیزیں جو عجیب ہیں، ایک یہ کہ آپ کو اسے نافذ کرنے کے لیے مردم شماری کی ضرورت ہے اور دوسری ہے حد بندی کی ،جو آپ لوگوں نے نہیں کرائی،اس لئے میرا کہنا ہے کہ یہ ریزرویشن ابھی نافذ کیا جائے اور اس کے لئے حد بندی اور مردم شماری کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ 33 فیصد ریزرویشن براہ راست خواتین کو دیں۔‘‘ سونیا گاندھی نے ریزرویشن بل کی مکمل حمایت کی اور اسے ’اپنے شوہر اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا خواب‘ قرار دیا۔ ریزرویشن کے فوری نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ میں حکومت سے جاننا چاہتی ہوں کہ خواتین کو اس کے لیے کب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ کاکولی گھوش دستیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ ترنمول کانگریس ایک ایسی پارٹی ہے، جہاں 33 فیصد سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ خواتین رہی ہیں۔ خلاصہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کی ریزرویشن ایک اہم تاریخی فیصلہ ہے۔ لیکن علاقائی حد بندی سے متعلق بہت سی رکاوٹیں بھی ہو سکتی ہیں۔میرا مانناہے کہ سیاسی جماعتوں کی تنظیموں میں بھی 33 فیصد خواتین کا ریزرویشن ضروری ہے۔ اگر خواتین کو سیاست میں بااختیار بنانا ہے تو انہیں تنظیمی طور پر حصہ لینا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں عدلیہ اور صحت کے شعبوں میں ریزرویشن نہیں ہونی چاہیے۔ یہ وہ شعبے ہیں جہاں ہنرمند، تجربہ کارو ماہرین ضروری ہیں۔ خواتین کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ انہیں ’ڈمی‘ کے طور پر یا محض جنس کی بنیاد پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ خواتین کو ماسک کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بہادر خواتین کی تاریخ رکھنے والے ملک میں 76 سال سے خواتین کو بااختیار نہیں بنایا گیا، اسی لیے خواتین ریزرویشن بل کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے سیاسی اثرات 2024 کے انتخابات میں بھی نظر آئیں گے۔ خواتین ریزرویشن بل 2023 کو راجیہ سبھا میں فوری طور پر پاس کروا کر مودی حکومت نے بلاشبہ ایک بہت اہم فیصلہ لیا ہے۔
جلد از جلد قابل عمل جگہ پر اس کا نفاذ اس قانون کے مقصد کو نافذکرنے میں مدد دے گا۔ دراصل خواتین ریزرویشن ایکٹ خواتین کی طاقت کی تحریک کے لیے چکی کا پتھر ثابت ہوا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS