محبتِ رسولؐ کے تقاضے

0
image:ummid.com

ڈاکٹرحافظ کرناٹکی

جب ہم کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اگر نہیں بھی کرتے ہیں تو ہمارے کسی نہ کسی رویے سے اس کا اظہار جانے انجانے طور پر ہو ہی جاتا ہے۔ یہی حالت ہماری محبت کا ہے۔
جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کا اظہار بھی ہمارے قول و فعل اور عمل اور شوق دید سے ضرور ہوتا ہے، اور اگر محبت خالص ہو، اصلی ہو، سچی ہو تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ اسے اس طرح سمجھیے کہ ہم جس سے محبت کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہوجاتے ہیں۔ بلکہ حقیقی محبت کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ ہم جس سے محبت کریں بالکل اسی کی طرح ہو جائیں۔ حضورؐ سے محبت کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم اپنی وضع قطع، اپنا لباس، اپنا طور طریقہ، سلیقہ سب کچھ حضورؐ کی سیرت کے مطابق اپنائیں۔ اپنے آپ کو اپنے محبوب کے جیسا بنائیںان کی ہر بات پر دل و جان سے عمل کریں۔ ان کے ہر حکم کی صدق دل سے تعمیل کریں اور اسی کو اپنی زندگی کی کامیابی جانیں۔یہ ٹھیک ہے کہ محبت اور نفرت دلی جذبات ہیں۔ جب تک یہ دل میں موجزن رہتے ہیں دوسروں کو اس کا علم نہیں ہوتا ہے۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ پر سب عیاں رہتا ہے۔ کیوں کہ وہ دلوں کا بھید جاننے والا ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے؛’’زمین و آسمان کی ہرچیز کا اسے علم ہے، جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے اور اللہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔‘‘ (التغابن ۷)
لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دلی کیفیات کے آثار انسان کی حرکات، اعمال، افعال، اقوال وغیرہ سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ بلکہ ہوہی جاتے ہیں۔ کہاوت مشہور ہے کہ مشک اور عشق چھپائے نہیں چھپتاہے۔ اب اگر کسی مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت موجزن ہوگی تو ظاہر ہے کہ وہ بھی کسی بھی طرح نہیں چھپے گی۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛’’ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تا کہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اوراطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضورؐ سے سب سے زیادہ ان کے صحابۂ کرامؓ، ان کی ازواج مطہراتؓ اور ان کے اہل بیت کرتے تھے۔ ان کی محبتیں خالص ہیرے کی طرح تھیں، اس کے باوجود انہوں نے حضورؐ کی محبت میں حد اعتدال کا پورا خیال رکھا۔ کبھی غلو نہیں کیا۔ مگرجیسے جیسے وقت گزرتا گیا، محبت کے جذبات پہلے جیسے سچے پاکیزہ نہیں رہ گئے یا یوں کہیں کہ اکثر لوگوں کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت صحابہ کرام ؓ کی محبت کی طرح خالص نہ رہ سکی۔ اس لیے بعض لوگوں نے اپنی محبت کے اظہار میں غلو سے بھی کام لیا۔ جبکہ غلو صرف عشق الٰہی میں مستحسن ہے۔یاد رہے کہ جس طرح محبت رسولؐ میں اعتدال بہت ضروری ہے۔ اسی طرح محبت رسولؐ میں کوتا ہی بہت بری بات ہے۔ آج کل ماحول میں حضورؐ کی محبت کے بارے میں کمی و کوتاہی کی بہت ساری مثالیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔جیسا کہ عرض کیا گیا کہ حضورؐ سے محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضورؐ کی سنتوں پر عمل کیا جائے۔ مگر آج کل صورت حال یہ ہے کہ اوّل تو حضورؐ کی سنتوں پر لوگ بہت کم عمل کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی سنت رسولؐ پر عمل کی تائید کرتا ہے تو اس کی بات ماننے اور سننے کے بجائے بعض لوگ ایسے لوگوں کو دقیانوسی خیال کا بتا کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ مذاق اڑانے والے کے دل میں حضورؐ کی محبت زندہ نہیں ہے۔ اور اگر ہے بھی تو اس قابل نہیں ہے کہ اسے محبت رسولؐ سے تعبیر کیا جائے۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ بہ ظاہر بہت پکے مسلمان نظر آتے ہیں۔ قرآن احادیث اور سنت رسولؐ کی باتیں کرتے ہیں، دین اسلام سے سچی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر عملاً ان کی زندگی میں سنت رسولؐ کا دخل ونفاذ بہت کم ہوتا ہے۔ جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے دل میں حضورؐ کی محبت کی روشنی یاتو نہیں ہے اور اگر ہے تو اتنی مدھم کہ اس کے ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے جبکہ حضورؐ نے فرمایاہے؛’’اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ تم سے محبت کریں تو امانت اداکرو، بات کرو تو سچی بات کرو اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔‘‘آپ توجہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ آج بہت سارے مسلمان ایسے ہیں جو امانت دار نہیں ہیں، قول و فعل کے سچے نہیں ہیں، اور یہ کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کا رشتہ اور سلوک اپنے پڑوسیوں سے اچھا نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ لوگوں کے دل حضورؐ کی محبت سے خالی ہیں۔ اگر خالی نہ ہوتے تو وہ اپنے محبوب کی باتوں کا ہر حال میں پاس ولحاظ رکھتے، اور ان کی ہر بات پر عمل کر کے دکھاتے۔حضورؐ سے محبت کا دعویٰ رکھنے والے ایسے بے شمار لوگ ہیں جو حضورؐ کی سنتوں کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، ہنسنے، رونے، پہننے، اوڑھنے، چلنے، پھرنے، بات کرنے سے لے کر لوگوں سے معاملات کرنے تک کی سنتوں کو وہ بھلائے ہوئے ہیں۔اسی طرح حضورؐ کی وضع قطع، شکل و شباہت اور رکھ رکھاؤ سے متعلق بہت سی سنتوں کو نظر انداز کرچکے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ زبانی عاشق رسولؐ ہیں۔ جبکہ ان کے دل حضورؐ کی محبت سے خالی ہیں۔ یہی حالت عبادات کی ہے۔صحیح حدیث سے روگردانی کرنا بھی اس بات کی علامت ہے کہ دل حضورؐ کی محبت سے خالی ہے۔ جبکہ عشق رسولؐ اور محبت رسولؐ کا حق یہ ہے کہ حضورؐ کی ایک ایک بات اور حکم کو اپنی جان سے زیادہ قیمتی جاناجائے۔جب ایک انسان کو کسی انسان سے محبت ہوجاتی ہے تو اپنی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے محبوب کی پسندوناپسند جاننے کی کوشش میں سرگرداں ہوجاتا ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اگر اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں شخص اس کے محبوب کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے تو اس سے رجوع کرتا ہے۔اگر اسے یہ جاں فزاخبر مل جائے کہ اس کے محبوب کی باتوں کو اس کی پسند و ناپسند کو کسی نے کتابی صورت میں جمع کردیا ہے تو اس کے حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے۔ اور جب تک ایک ایک حرف کو اپنی آنکھوں کا سرمہ نہ بنالے اسے چین نہیں آتا ہے۔مگر ایمان کے دعویدار ایسے مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو عشق رسولؐ کا دعویٰ تو کرتے ہیں اور محبت رسولؐ کے نغمے تو گاتے ہیں مگر حضورؐ کی سیرت مبارک کے پڑھنے، احادیث مبارکہ کے مطالعے میں اپنا وقت نہیں لگاتے ہیں۔ اسے سیکھنے کے لیے اپنی بے تابی اور بے قراری کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ اپنے لخت جگر اور نور چشمی کو سائنس، ریاضی، نفسیات، معاشیات، اور معالج بنانے کے لیے تو ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں، مگر اسے ماہر سیرت نبویؐ، ماہر احادیث نبویؐ، ماہر قرآن کریم بنانے کے لیے کسی قسم کی محبت اور جذبات کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگ تو اپنے بچوں کو اسمائے حسنی، اور حضورؐ کی ازدواجی، اور عملی زندگی کے واقعات تک پر توجہ کرنے پر زور نہیں ڈالتے ہیں۔صورت حال تو اتنی خراب ہے کہ حضورؐ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کو حضورؐ کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہے اورنہ وہ معلومات حاصل کرنے کے اضطراب میں مبتلا ہیں۔ اور نہ اپنی آنیوالی نسلوں کو اس طرف راغب کرتے ہیں۔ پھر بھی محبت رسولؐ کا دعویٰ زور و شور سے کرتے ہیں۔ جبکہ یہ سارے شواہد صاف طور پر اعلان کرتے ہیں کہ دل محبت رسولؐ سے خالی ہے۔حضورؐ سے محبت کا دم بھرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپؐ سے متعلق تمام چیزوں کی قدر کی جائے۔ اسے اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ وہ بھی اس طرح کہ آپؐ کی محبت جسم و جان کا حصّہ بن جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کی ذات مقدس اب ہمارے درمیان نہیں ہے مگر آپؐ کی تعلیمات، آپؐ کی احادیث مبارکہ، آپؐ کے فرمودات، تو موجود ہیں جن کا احترام ہر اس انسان کی زندگی کا مقصد ہوناچاہیے جس کے دل میں آپؐ کی محبت زندہ ہے۔یعنی آپؐ کی احادیث کا احترام کیا جائے، اسے اپنی زندگی پر نافذ کیا جائے، آپؐ کی سیرت کے مطابق زندگی گزاری جائے، آپؐ کے فرمودات پر عمل کیا جائے۔ آپؐ کے حکم پر کسی اور کے حکم کو اوّلیت اور اہمیت نہ دی جائے۔ آپؐ کی محبت میں برپاکی جانے والی مجلس میں شرکت کو سعادت سمجھاجائے۔ یہ ساری باتیں غلو کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ غلو کچھ اور چیزیں ہوتی ہیںجن کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔ یہ ساری چیزیں تو حضورؐ کا حق ہیں جسے ہر مسلمان کو ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ؛’’اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو!اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرو جس طرح آپس میں تم ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (الحجرات )
حضرت سائب بن یزیدؒ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں سورہا تھا کہ کسی شخص نے مجھے کنکریاں مار کر بیدار کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ عمر ابن الخطابؓ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ ان دونوں کو بلاکر لاؤ جو بلند آواز میں باتیں کررہے ہیں، جب میں انہیں بلا کر حضرت عمرؓ کے پاس لایا تو حضرت عمرؓ نے ان سے سوال کیا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔حضرت عمرؓ نے فرمایا؛ اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا ۔ تم لوگ حضورؐ کی مسجد میں اپنی آواز بلند کررہے ہو!ہم جانتے ہیں کہ نبی ؐسے محبت دراصل اللہ سے محبت ہے۔ نبیؐ کی خوشنودی دراصل اللہ کی خوشنودی ہے۔ نبیؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہترین طریقہ نبیؐ پر درود بھیجنا ہے۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ پریشانیاں بھی دور ہوتی ہیں اور درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔ جبکہ درود نہ بھیجنے والے لوگ سب سے افضل فرشتے، اور سب سے افضل نبی کی زبان پر رحمت الٰہی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبیؐ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا؛’’وہ شخص اللہ کی رحمت سے دور ہوا جس کے سامنے آپؐ کا ذکر آیا اور اس نے آپؐ پر درود نہ پڑھا۔‘‘خود حضورؐ کا ارشاد ہے کہ؛’’بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔‘‘ ہر وہ انسان جس کے دل میں نبیؐ کی محبت کی روشنی کی ایک بوندبھی ہوگی وہ آپؐ کا نام سنتے ہی درود شریف ضرور پڑھے گا۔ اور اگر نہ پڑھے تو ظاہر ہے کہ اس کا دل عشق رسولؐ کی روشنی سے خالی ہے۔اب تک جتنی باتوں کا ذکر کیاگیا یہ نبیؐ کی محبت کا حق ہے۔ اور یہ حق وہی ادا کرتا ہے، یا کرے گا جس کے دل میں آپؐ کی محبت زندہ ہے یا زندہ رہے گی۔ وہ لوگ جو محض زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہیں، وہ حضورؐ کی مجلس کو بھی اپنی دنیاوی کامیابی کے حصول کا ایک ذریعہ بناتے ہیں اور اس سے جو کچھ بھی منفعت، شہرت، مقبولیت وغیرہ حاصل کرسکتے ہیں وہ سب کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وہ عشق رسولؐ کا حق ادا نہیں کرپاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے دلوں میں محبت رسولؐ ہوتی ہی نہیں ہے۔اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ فی الواقع ہمارے دلوں میں محبت رسول ؐ کا چراغ روشن ہے یا نہیں؟ ہم ناموس رسالت اور محبت رسولؐ کے پاسبان ہیں یا نہیں؟ اپنا محاسبہ اگر ہم خود حضورؐ کی تعلیمات کی روشنی میں کریں گے تو ہم آسانی سے اپنی کوتاہیوں پرقابو پائیں گے اور اگر اللہ توفیق عطا کرے گا تو ہم اپنے بجھے دلوں میں رسولؐ سے محبت کا چراغ روشن کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS