اسلام میں گواہ کی اہمیت اور اس کی افادیت

0

مولانا محمد عبدالحفیظ

قرآن کریم میں ہے (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کررہا ہو تو اس کیلئے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عقل آدمی گواہ بنائے جائیں۔ یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت آجائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لئے جائیں۔ پھر اگر کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں ) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیجنے والے نہیں ہیں، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ( ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔ (سورہ مائدہ)
مذہب اسلام ،ایک مکمل ضابطہ حیات انسانوں کو پیش کرتا ہے ، چاہے معاملہ عبادت کا ہو ذکر اذکار ہو ،چاہے اس کا تعلق معاشرت ،معیشت، سیاست و اخلاق سے ہو۔ غرض کہ ہر معاملہ میں اولاد آدم کی رہنمائی کرتا ہے جسے اپنا کر نسل انسانی دنیا کا امن اور آخرت کی سرخروئی یقیناً حاصل کرسکتی ہے۔ گزشتہ مضمون میں یہ بات آئی تھی کہ ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی فکر کریں یعنی راہ راست پر قائم رہیں (امربالمعروف و نہی عن المنکر) کا فریضہ ادا کریں۔ مضمون کی ابتداء میں جو آیت مبارکہ پیش کی گئی ہے اس میں فرمان حق تعالیٰ یوں ہے کہ اے مسلمانو تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ جب وصیت کررہا ہو تو اسے چاہئے کہ مسلم برادری میں سے دو آدمی گواہ بنالے۔ سفر کی حالت میں ہو اور مسلمان گواہ نہ بنائے جاسکتے ہوں تو غیر مسلموں میں سے دو گواہ لے لئے جائیں۔ آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ ’’ایک شخص ‘‘ بدیل نامی جو مسلمان تھا دو شخصوں تمیم وعدی کے ساتھ جو اس وقت نصرانی تھے ، بغرض تجارت ملک شام کی طرف گیا، شام پہنچ کر ’’بدیل ‘‘ بیمار ہوگیا ، اس نے اپنے مال کی فہرست لکھ کر اسباب میں رکھ دی اور اپنے دنوں رفیقوں کو اطلاع نہ کی ، مرض جب زیادہ بڑھا تو اس نے دونوں نصرانی رفقاء کو وصیت کی کہ کل سامان میرے وارثوں کو پہنچادینا ، انہو ںنے سب سامان لاکر وارثوں کے حوالے کردیا ، مگر چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کا ملمع یا نقش و نگار تھا اس میں سے نکال لیا ،وارثوں کو فہرست اسباب میں سے دستیاب ہوئی ،انہو ںنے اوصیاء (دو شخصوں تمیم وعدی ) سے پوچھا کہ میت نے کچھ مال فروخت کیا تھا یا کچھ زیادہ بیمار رہا کہ معالجہ وغیرہ ہوا ہو ، ان دونوں نے اس کا جواب نفی میں دیا آخر معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوا چونکہ وارثوں کے پاس گواہ نہ تھے تو ان دونوں نصرانیوں سے قسم لی گئی کہ ہم نے میت کے مال میں کسی طرح کی خیانت نہیں کی ، نہ کوئی چیز اس کی چھپائی ،آخر قسم پر فیصلہ ان کے حق میں کردیا گیا، کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوا کہ وہ پیالہ ان دونوں نے مکہ میں کسی سنار کے ہاتھ فروخت کیا ہے ،جب سوال ہوا تو کہنے لگے ہم نے میت سے خرید لیا تھا ،چونکہ خریداری کے گواہ موجود نہ تھے اس لئے ہم نے پہلے اس کا ذکر نہیں کیا ،مبادا ہماری تکذیب کردی جائے۔ میت کے وارثوں نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا ، اب پہلی صورت کے برعکس اوصیاء خریداری کے مدعی اور وارث منکر تھے، شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے وارثوں میں سے دو شخصوں نے جو میت سے قریب تر تھے قسم کھائی کہ پیالہ میت کی ملک تھا، اور یہ نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں ، جس قیمت پر انہوں نے فروخت کیا تھا (ایک ہزار درہم پر ) وہ وارثوں کو دلائی گئی۔
(از مفتی شفیع صاحبؒ)
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر آدمی مرنے سے پہلے وصیت کررہا ہو اس کا بہترین طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اپنے مسلم بھائیوں میں سے دو آدمی (یعنی دیندار ،راست باز اور قابل اعتماد مسلمان) کو گواہ بنایا جائے ، اگر مجبوری کی حالت میں مثلاً سفر کی حالت وغیرہ ہو تو اور وہاں مسلمان گواہ نہ بنائے جاسکتے ہو ں تو ایسی صورت میں غیر مسلم حضرات میں سے بھی دو گواہ لئے جاسکتے ہیں اس میں کوئی قباحت نہیںہے اگر جن (مسلم گواہوں ) کے معلق تمہیں کچھ شک پڑ جائے (یعنی کل کو خدانخواستہ یہ اپنی گواہی کا غلط استعمال کریں گے) تو یہ طریقہ بتایا جارہا ہے کہ ایسی صورت میں تم ان سے قسم لے لو اور قسم کس طرح لی جائے اس کے الفاظ یہ بتائے جارہے ہیں کہ’’وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں ،اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔
غرض کہ قسم کھلا کر اس قسم کے الفاظ کا اقرار کروانا اس صورت میں ہے کہ وصیت کرنے والے کو گواہوں کے متعلق کچھ شک پڑ جائے۔ ورنہ عام طور پر قسم دلا کر وصیت کرنے کی ضرورت نہیں البتہ یہ ضرور دیکھا جائے کہ گواہ نمازی پر ہیز گار ہوں کافی ہے۔ قسم کھلانے اور عہد لینے کی ضرورت نہیں یہ بتایا گیا کہ کسی نماز کے بعد انہیں مسجد میں روک لو۔ مولانا امین احسن اصلاحی ’’مِن بَعْدِ الصَّلوٰۃِ ‘‘ کے متعلق تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی مخصوص نماز نہیں بلکہ یہ لفظ اسم جنس کے طور پر استعمال ہوا ہے جس نماز کے بعد بھی وصیت کرنے والے کو موقع میسر آجائے یہ کام کرسکتا ہے۔ نماز کی قید کا فائدہ یہ ہے کہ جو قول و قرار اور شہادت و قسم نماز کے بعد اور مسجد میں نمازیوں کی موجودگی میں انجام پائے ، ایک صاحب ایمان سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ وہ اس پر مضبوطی سے قائم رہے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS