یوم جمہوریہ اور ہند کا بدلتا منظر نامہ

0
https://www.timesnownews.com/

محمد فرقان پالن پوری

یوم جمہوریہ ہند بھارت کی ایک قومی تعطیل ہے جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے، اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا، منسوخ کر کے آئینِ ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور آئین ہند کی عمل آوری ہوئی؛ دستور ساز اسمبلی نے آئین ہند کو 26نومبر1949ء کو اخذ کیا اور26 جنوری1950ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی؛ آئین ہند کی تنفیذ سے بھارت میں جمہوری طرزِ حکومت کا آغاز ہوا۔
یوم جمہوریہ کے موقع پر اس بات کا اعتراف کرنے میں یقینی طور پر ہمیں یہ خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم ایک ایے ملک کے باشندے ہے، جو پورے عالم میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، دنیا کے بہت سارے ممالک میں ، ہمارے ملک کے جمہوری طرز حکومت کو مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے، جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات اور رسم و رواج کے چاہنے اور ماننے والے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں، صدیوں سے یہاں گنگا، جمنی تہذیب و تمدن کی فضا رچی بسی ہے، دوستی، محبت، بھائی چارگی،یکجہتی، مساوات اور اخوت یہاں کی شناخت ہے، جمہوریت کے لغوی معنیٰ لوگوں کی حکمرانی یعنی Rule of People کے ہیں اور آزادیٔ ہند کی حصولیابی کے بعد 26جنوری 1950 ء سے بابا صاحب امبیدکر کے ذریعہ تیار کئے جانے والے آئین کے تحت اس ملک میں جمہوریت اپنی پوری مضبوطی اور استحکام کے ساتھ قائم ہے۔
آزادی کا مطلب ہر شخص کوکھلی فضا میں سانس لینے کا حق ہے، آزادی ایک بیش بہا نعمت، قدرت کا انمول تحفہ اور زندگی کی روح اور زیست کا خوط صورت احساس ہے، اِس کے برعکس غلامی و عبودیت ایک فطری برائی، کربناک اذیت اور خوفناکاحساس ہے، جس طرح معاشرے میں شخصی آزادی نہایت اہم ہے اُس سے کہیں زیادہ اجتماعی آزادی اہمیت کی حامل ہے؛ بالفاظ دیگر آزادی ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بڑی نعمت نہیں اور اِس کی حفاظت ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داری ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت، گزشتہ چند برسوں سے بری طرح پامال ہو رہی ہے، ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں برباد کرنے کے در پے ہیں، جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگوں کی تشویش دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے؛ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہر شخص یہ اندازہ لگا سکتا ہے اور برملا یہ کہہ سکتا ہے کہ زبان پر آزادی اور جمہوریت کے نغمے تو ضرور ہیں؛ مگر دل منافقت و عداوت سے بھرا پڑا ہے! کینہ پروری، بغض و حسد، تنگ نظری اور مسلمانوں اور مظلوموں کے تئیں منفی جذبات و خیالات پنپتے جارہے ہیں! پھر بھی یہی لوگ رسماً آزادی اور یوم جمہوریہ کا جشن مناتے ہیں! دستور وآئین کی روح کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہیں کرتے، اسکی پاسداری کی قسمیں تو کھاتے ہیں؛ مگر اقلیتوں، مظلوموں اور بے سہاروں کے حقوق کی پامالیاں ملک میں عام ہیں، حریت کی تاریخ کچھ کہہ رہی ہے اور اس کا منظرنامہ کچھ اور ہے، حلف اور اسکے احتساب سے ارباب اقتدار چشم پوشی کیے ہوئے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جونہ صرف اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ملک کی یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کی خوبصورتی کو قربان کرتے جارہے ہیں؛ بلکہ ملک کے دستور و آئین سے مذاق بھی کرتے نظر آرہے ہیں، اِدھر ملک کا سینہ چھلنی چھلنی ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔ اُدھر ظاہرا آزادی اور جمہوریت کے جشن کا ڈھول خوب پیٹاجا رہا ہے، ایک طرف خون کی ہولیاں کھیلی جارہی ہیں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، کسانوں، کمزوروں اور مزدوروں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں؛ حتی کہ ان پر لاٹھیاں اورگولیاں بھی چلائی جارہی ہیں تو دوسری طرف فسطائی طاقتیں یہ کھیل تماشہ دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکراتی جا رہی ہیں اور اسطرح وہ ملک کا تانہ بانہ بکھیررہے ہیں، ملک کی قدیم رواداری والی روایات کو مسمار کرکے رکھ دینا چاہتی ہیں، ایسے ذہن کے لوگ خواہ آزادی کے ہزار گیت گا لیں، ملک کا اس سے کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے، وہ اپنی ناپاک کوششوں اور حربوں سے آخرکب بازآئیں گے؟! اور کب تک صرف جمہوریت کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں گے!اور اپنی غلط پالیسیوں سے ملک کو تباہ و برباد کرتے رہیں گے! وہ لوگ کچھ ایسے بھی کام کرنے لگے ہیں،جو بالکل دستوروآئین مخالف ہیں؛ جن سے مسلمانوں کی عزت و غیرت کو للکارا جارہا ہے، یہانتک کے ان کے خلاف غیر آئینی کالے قانون نافذ کیے جارہے ہیں! جو کام انگریزوں کے دور اقتدار میں بھی نہیں ہوا وہ کام اس جمہوری اور آزاد ملک میں موجودہ ارباب اقتدار کی سرپرستی میں بعض نام نہاد تنظیمیں انجام دے رہی ہیں،جو سراسر ملک مخالف، جمہوریت مخالف، دستور مخالف اور مسلم مخالف کارنامے ہیں، اور مسلمان جوکہ امن پسند، دین پسند، جمہوریت پسند، محب وطن ہیں انکو ظلم و زیادتی کا مشق ستم بنائے ہوئے ہیں۔ہائے افسوس۔۔۔کیا جمہوریت میں کسی ایک خاص طبقے کے خلاف کرنے کی کہیں بھی اجازت ہے؟ ہر گز نہیں! ہر گز نہیں۔۔۔الغرض اسوقت پورا ملک حیران و پریشان ہے اورمختلف پریشانیوں کا ہر شخص سامنا کررہا ہے، ایک عجیب کشمکش ہے جس میں تمام لوگ مبتلا نظر آرہے ہیں؛ احتجاج و مظاہرہ کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے، پسماندہ طبقات اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے محاذ پر ڈٹے ہیں، ملک میں کہیں وباؤں کا حملہ ہے تو کہیں بھوک و پیاس کا خوف وڈر ہے، کہیں تعلیم و تربیت کا بحران ہے تو کہیں اسکی وجہ سے حکم عدولیاں اور نافرمانیاں ہیں! تو کہیں ظلم و زیادتی کی کثرت ہے؛ پھر بھی ہمیں تاریکی سے تاریکی کی نہیں بلکہ اپنی نئی نسلوں اور امن پسند جیالوں کی فکر و نظر سے سحر فردا کی قوی امید ہے، مکمل آزادی کا پختہ یقین ہے؛ کیونکہ ہمیں ’’ان مع العسر یسرا‘‘ اور ’’ان اللہ مع الصابرین‘‘ پر پورا یقین و ایمان ہیں ؛ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی دنیا آپ بنائیں، اپنے وقت و صحت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک علمی وانسانی انقلاب پیدا کریں۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ’’ الصفہ اکیڈمی‘‘ کی جانب سے ہر انصاف پسند اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد سے گزارش ہے کہ ملک کے ایسے لوگ پوری طاقت سے سامنے آئیں اور ملک کو، ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ملک اس وقت ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں سے اسے صحیح راہ کی طرف موڑنے کی بہت سخت ضرورت ہے؛ اگر ملک فرقہ واریت اور منافرت کی راہ پر مُڑ گیا تو ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے جتنی قربانیاں دے کر ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا ہے اور جمہوریت قائم کی ہے، یہ سب ختم ہو جائیگا، اس لیے آج کے یوم جمہوریہ پر ہم یہی ارادہ کریں کہ ملک کی بقا اور اس کی سا لمیت کے لیے ہر قیمت پر ہم یہاں کی جمہوریت کی حفاظت کریں گے۔

الصفہ اکیڈمی، دہلی

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS