ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں جتنی کشیدگی رہتی ہے، اتنے ہی بہتر ہونے کے امکانات بھی رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی نہیں سمجھ پاتا کہ کب تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے اورکب بات چیت کی کوئی کھڑکی کھل جائے گی، پھر کسی نہ کسی بہانے کسی نہ کسی مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ ہوجاتاہے۔اس وقت بھی کچھ ایسے ہی حالات نظر آرہے ہیں۔ دونوں کے قریب آنے کی آہٹ اچانک سنائی دینے لگی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے یہ بیان دے کر سب کی توجہ مبذول کرلی کہ ہندوستان مذہبی مقامات کے تعلق سے پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے اور اس پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔تاکہ دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے یہاں واقع مذہبی مقامات کادورہ کرسکیں۔یہ تو ہندوستان کی طرف سے بیان آیا ہے۔ اس سے قبل نئی دہلی میں واقع پاکستانی مشن نے بھی وزارت خارجہ کو تجویز پیش کی تھی کہ عقیدت مندوں اورزائرین کو فضائی سفر کرنے کی اجازت دی جائے۔تجویز میں خاص طور سے پاکستان کے 2ہوائی اڈوں لاہور اور کراچی سے 2چارٹرڈ جہازوں کو ہندوستان آنے کی اجازت دینے کی بات کہی گئی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان کی حکمراں جماعت تحریک انصاف پارٹی کے ہندو ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے بھی ہندوستان سے درخواست کی تھی کہ تیرتھ یاتریوں کے ایک وفد کو چارٹرڈ جہاز سے ہندوستان آنے کے لیے ویزاجاری کرے۔اس وفد کی قیادت خود ڈاکٹر وانکوانی ہی کرنے والے ہیں۔اب اس پر ہندوستان کی طرف سے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ہندوستان نے کہا ہے کہ فی الحال چارٹرڈ جہاز کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی، البتہ کورونا کے حالات بہتر ہونے کے بعد اس پر بات چیت کی جائے گی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار پریس کے ساتھ بات چیت میں جو اہم بات کہی، وہ یہ کہ 1974کے پروٹوکول کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے عقیدت مندوں اورزائرین کے لیے مذہبی مقامات پر جانے کی چھوٹ دینے کے بارے میں بات چیت ہونی چاہیے۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ جن مذہبی مقامات پر لوگ زیادہ جانا چاہتے ہیں، وہاں آنے جانے کے لیے سمجھوتہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ ہندوستان اس معاملہ میں مثبت سوچ رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان بھی اس میں شامل ہو۔دراصل دونوں ملکوں میں بہت سے ایسے مذہبی مقامات ہیں جن سے ایک بڑی آبادی جڑی ہوئی ہے، وہ زیارت اورتیرتھ یاترا کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔موجودہ پروٹوکول کے مطابق ہندوستان میں 5اورپاکستان میں 15مذہبی مقامات کے تعلق سے ضوابط ہیں۔پاکستان میں زیادہ تر مذہبی مقامات گرودواروں پر مشتمل ہیں۔ دونوں ملکوں کے شہری بلاروک ٹوک ان مذہبی مقامات کی زیارت اور وہاں کے لیے تیرتھ یاترا کرناچاہتے ہیں۔لیکن فی الحال واگھہ بارڈر اورکرتارپور کوریڈورکے ذریعہ ہی لوگ ہندوستان اورپاکستان کے درمیان آتے جاتے ہیں۔اب ان راستوں کو وسعت دینے کی بات ہورہی ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی کا کہنا ہے کہ 1974کے پروٹوکول کے تحت مذہبی مقامات کے سفرکے راستوںمیں توسیع دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے میں ڈپلومیسی کا ایک الگ ہی رول ہوتا ہے۔ ڈپلومیسی کبھی کبھی وہ کام کرجاتی ہے جو بات چیت کی میز پر یا مذاکرات سے نہیں ہوپاتا۔ ہندوستان اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات میںکئی مواقع ایسے آچکے ہیں،جب بات چیت کے دروازے بند ہوتے ہیں لیکن کسی نہ کسی بہانے یا کسی بات پر ڈپلومیسی سے برف پگھلنے لگتی ہے اور کشیدہ تعلقات بہتر ہونے لگتے ہیں۔ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔کرتارپور کوریڈورکھلنے کے بعد جوپیش رفت ہوئی تھی وہ نہ صرف مذہبی سیاحت کو فروغ دینے یا مذہبی یاترا ڈپلومیسی تک پہنچ گئی بلکہ مذاکرات اورسمجھوتے کی بات ہونے لگی، جوبڑی بات ہے۔ پاکستانی مشن نے جو تجویز پیش کی اورہندوستان نے جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا ہے، اس سے بات چیت کے آثار نظرآنے لگے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ ضرورت کے تحت آگے دوسرے مسائل بھی زیربحث آسکتے ہیں۔اگریہ کہا جائے توغلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی اوربہتری معمول بن چکی ہے۔نہ تو خراب ہونے میں دیر لگتی ہے اورنہ بات چیت کی کھڑکی کھلنے میں۔ دونوں نہ زیادہ دنوں تک قریب رہ پاتے ہیں، کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ انہیں دور کر دیتا ہے اورنہ طویل عرصے تک دور رہ سکتے ہیں، کیونکہ شہریوں کی کوئی نہ کوئی ضرورت انہیں قریب کردیتی ہے۔ کچھ ایساہی حال اس وقت ہے۔
[email protected]
مذہبی سیاحت ڈپلومیسی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS