محمد فاروق اعظمی
آسام کی بی جے پی حکومت اور اس کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے طے کر رکھا ہے کہ آسام سے مسلمانوں کا صفایا کرکے ہی دم لیں گے۔وزیراعلیٰ بننے کے پہلے دن سے ہی وہ اپنے اس مقصد کی تکمیل میں سرگرم ہیں۔آج ان کی کوششوں سے آسام کا ماحول ایسا بن گیا ہے کہ مسلمانوں کی لاش پر جشن منانا بھی معیوب نہیں رہا۔چند یو م قبل آسام کے ڈورنگ ضلع میں جوشرم ناک واقعہ پیش آیا، اس پر افسوس اور ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ ہیمنت سرما اپنی ہٹ پر قائم ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ آسام کی زمین پر گنجائش سے زیادہ بوجھ نہیں رہنے دیں گے۔اس بوجھ کو کم کرنے کیلئے انہوں نے پولیس فورس کو کھلی چھوٹ د ے رکھی ہے۔ تجاوزات ہٹانے کے نام پر پولیس فورس نہتے مسلمانوں پر فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کررہی ہے اور پولیس کے فوٹو گرافر مسلمانوں کی لاش پر جشن منارہے ہیں۔پولیس کی اس وحشیانہ کارروائی سے پورا ملک لرز اٹھا ہے لیکن آسام کی بی جے پی حکومت کو اس میں بھی مسلمانوں کی غلطی نظرآرہی ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ جب پولیس ناجائز قبضہ ختم کرانے گئی تھی تو دہائیوں سے مقیم ہزاروں مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے نکل جاتے مگرانہوں نے احتجاج اور مظاہرہ کرکے پولیس کو اشتعال دلایا جس کے جواب میں پولیس نے انہیں گولی ماری۔ اگر فائرنگ نہیں کی جاتی تو پولیس والوں کی جانوں کو خطرہ لاحق تھا اور وہ مظاہرین کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتے کیوں کہ مظاہرین کے ہاتھوں میں تیز دھار اسلحہ تھا اور وہ سیکڑوں کی تعداد میں آگے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لیکن اس واقعہ کا جو ویڈیومنظرعام پر آیا ہے وہ پولیس کے دعویٰ کی نفی کر رہا ہے۔ ویڈیومیں صاف طور پر دیکھاجارہاہے کہ صرف چند بکھرے ہوئے افراد، جن کے ہاتھوں میں لاٹھی یا ڈنڈا ہے وہ سامنے کی طرف آرہے ہیں۔ یہ چند ادھ ننگے نیم جان افراد کسی حال میں بھاری پولیس فورس کیلئے کوئی خطرہ نہیں تھے۔
سچائی تو یہ ہے کہ ڈارنگ کے سیپ جھار میں دہائیوں سے مقیم مسلمانوں کواجاڑنے گئی پولیس فورس کی قیادت وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے بھائی ڈارنگ ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسواسرما کررہے تھے جن کی مسلم دشمنی کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ اپنے بھائی وزیراعلیٰ کی شہ پر انہوں نے اپنی زمین کی حفاظت کیلئے سامنے آنے والے نہتے مسلمانوں پربلاوجہ فائرنگ کی ہدایت جاری کردی جس کے نتیجہ میں دو مسلمان ہلاک اور درجنوں شدید طور سے زخمی ہوگئے۔ پولیس کی فائرنگ سے زمین پر گرجانے والے معین الحق کی لاش پر جس طرح سے کود کود کر جشن منایا گیا اور بعد میں جے سی بی مشین کے ذریعہ اس کی لاش کو الٹا گھسیٹ کر لے جایا گیا، وہ پولیس مظالم اور دہشت گردی کی انتہائی شرم ناک داستان ہے جس نے مہذب دنیا کو حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ ایک ایسی پارٹی جو ہندوستان کو وشو گرو بنانے کا دعویٰ کرتی ہو، اس کے حکمراں اس حد تک جاسکتے ہیں کہ صرف مذہبی تعصب اور منافرت کی وجہ سے انسانی لاش پر جشن منانے لگیں۔اس واقعہ کے خلاف انسانی حقوق کے کارکن آسام، کولکاتا اور دہلی میں سراپا احتجاج ہیں لیکن لگتا نہیںہے کہ ان کے اس احتجاج کا کوئی اثر ہونے والا ہے کیوں کہ اس وحشیانہ کارروائی کی رسمی تحقیقات کا حکم دینے کے بعد وزیراعلیٰ نے کہا کہ چاہے جو ہوجائے وہ زمین خالی کرانے کا کام جاری رکھیں گے۔
آسام میں جب سے بی جے پی کی حکومت ہے وہاں کے مسلمان خوف و دہشت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 2016 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سربا نندا سونو وال سے لے کرموجودہ ہیمنت بسوا سرما تک کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز، تعصب اور منافرت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ ہیمنت بسوا سرما اس نفرت کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ آسام کی زمین پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ہے۔اس کیلئے وہ آسام کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے بھی جتن کررہے ہیں۔ ناجائز قبضہ خالی کرانے کی مہم بھی مسلمانوں کو ہی سامنے رکھ کر چلائی جارہی ہے۔
آسام میں جب سے بی جے پی کی حکومت ہے وہاں کے مسلمان خوف و دہشت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 2016 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سرباننداسونووال سے لے کرموجودہ ہیمنت بسواسرما تک کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز، تعصب اور منافرت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ ہیمنت بسوا سرما اس نفرت کو بڑھاوادینے میں پیش پیش ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ آسام کی زمین پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ہے۔اس کیلئے وہ آسام کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے بھی جتن کررہے ہیں۔ناجائز قبضہ خالی کرانے کی مہم بھی مسلمانوں کو ہی سامنے رکھ کر چلائی جارہی ہے۔ ریاست کے11مسلم اکثریتی اضلاع کی بیشتر اراضی کو وہ سرکاری اراضی بتاتے ہوئے اس پر رہنے والے مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی مہم چلارہے ہیں۔ آسام میں ہر سال آنے والے سیلاب کی وجہ سے گھر بار گنواکر خیموں میں رہنے والے مسلمان ان کا پہلا نشانہ ہیں۔بی جے پی ناگا قبائلیوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلارہی ہے اور دہشت گرد گروہوں کی مددسے مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ موجودہ بی جے پی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہے جو90کی دہائی میں الفا نے وہاں کے غیر بنگالیوں کے ساتھ روا رکھا تھا بلکہ چند ایک معنوں میں حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ اس وقت علیحدگی پسند تنظیم یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (الفا) کے حملے کی زد میں بنگلہ اور ہندی بولنے والی آبادی تھی تاہم اسے حکومت کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا لیکن اس و قت ایک طرف بی جے پی اوراس کی عسکریت پسند تنظیمیں درپردہ رہ کر مسلمانوں کے خلاف زہر بونے کا کام کررہی ہیں تو دوسری طرف آسام کی بی جے پی حکومت مسلمانوں کو اجاڑنے اوران کی آبادی کم کرنے کا کام کھلے عام کررہی ہے۔90کی دہائی میں غیر آسامیوں پرا لفا کے حملے کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے تو آج بی جے پی کی نفرت انگیز مہم کا شکار ہوکر لاکھوں مسلمانوں کو اذیت کا سامنا ہے، ان کے گھربار چھینے جارہے ہیں اور انہیں ریاست سے باہر نکالا جارہاہے۔آسام میں مسلمان اس لیے بھی بی جے پی کے نشانہ پر زیادہ ہیں کہ وہاں جس مقصد کیلئے کانگریس کی این آر سی مہم کو بی جے پی نے نتیجہ خیز بنایا تھا،اس کا وہ مقصد پورا نہیں ہوپایا بلکہ اس کے برعکس بازی اس کے ہاتھ سے نکلنے لگی۔ آسام میں این آرسی لانے کا مقصدتو یہ تھاکہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو دربدر کیاجائے لیکن بی جے پی کی بدبختی یہ ہوئی کہ این آر سی سے14لاکھ سے زیادہ ہندوئوں کے ہی نام غائب ہوگئے جب کہ مسلمانوں کی تعداد 4لاکھ کے آس پاس ہی رہی۔ نیزشہریت ترمیمی بل کے ذریعہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے عیسائی، بودھ اور ہندوئوںکو ہندوستانی شہریت دینے کا معاملہ بھی آسام کی مقامی آبادی کو قبول نہیں ہے۔اس کی وجہ سے وہاں کی مقامی آبادی میںبی جے پی کے خلاف سخت اشتعال ہے لیکن بی جے پی پھوٹ ڈالوا ور حکومت کرو پر یقین رکھتے ہوئے مقامی آبادی کے اشتعال کا رُخ مسلمانوں کی طرف موڑ رہی ہے اور دوسری طرف ناجائزقبضہ کا بہانہ بناکر صدیوں سے رہ رہے مسلمانوں کو اجاڑرہی ہے۔
ڈارنگ میں ہونے والی درندگی بھی مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کی اسی نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے۔ اگر اس نفرت کو آج نہیں روکا تو گیا تو صرف مسلمان ہی نہیں اس کے شکار دوسرے بھی ہوںگے۔
[email protected]