اقبال اور نقشہائے بتان طناز

0

 

مجاہدالاسلام
اسسٹنٹ پروفیسر، مانو لکھنؤ کیمپس،لکھنؤ

  1. جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے شاعر مشرق علامہ اقبال کے متعلق لوگوں کی یہ سوچ پختہ ہوتی جارہی ہے کہ جیسے وہ کوئی مولوی ،مولانا یا نام نہاد کوئی واعظ یا ناصح رہے ہونگے ، جبکہ یہاں پر ایسا کچھ بالکل نہیں ہے۔ہے تو بس اتنا کہ وہ شاعر تھے اور وہ بھی سوامی وویکا نند،مدن موہن مالویہ وغیرہ ۔۔۔کی طرح اپنی قوم کی ترقی و سر بلندی چاہتے تھے ،مگر تھے وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہی ۔ مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید احمد خاں کی جوانی کا حال بیان کرتے ہوئے حیات جاوید میں ایک جگہ لکھا ہے:
    ”بے فکر امیر زادے عیاشی اور لہو و لعب کی مثالیں قائم کرتے جاتے تھے اور خر بوزوں کو دیکھ کر خربوزے رنگ بدلتے جاتے تھے اگرچہ سر سید سترہ یا اٹھارہ برس کی عمر میں متاہل ہو گئے تھے پھر بھی وہ اس متعدی مرض کے ا ثرسے اپنے تایں نہ بچا سکے۔”
    خود سرسید خاں نے اپنی جوانی کا حال بیان کرتے ہوئے یوں لکھاہے :
    ”ہم بھی اسی رنگ میں مست تھے ،ایسی گہری نیند سوتے تھے کہ فرشتوں کے بھی اٹھائے نہ اٹھتے تھے ،کیا کیا خیالات ہماری قوم کے ہیں جو ہم میں نہ تھے اور کون سی کالی گھٹائیں ہماری قوم پر چھا رہی ہیں جو ہم پر چھائی ہوئی نہ تھیں۔”
    بالکل یہی حال شاعر مشرق علامہ اقبال کا بھی تھا ۔ ان کے بچپنے کا ایک مشہور واقعہ ہے جس سے ان کی شخصیت کے خدو خال کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے، ایک دن جب وہ حسب معمول اسکول دیر سے پہنچے تو ان کے استاد نے ان سے پوچھا:” اقبال تم ہمیشہ دیر سے آتے ہو!” اقبال نے اس پرکچھ معذرت خواں ہونے کے بجائے فورا جواب دیا” اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔”
    اسی طرح ”ذکر اقبال” میں عبدالمجید سالک نے اقبال کی جوانی کی رنگ رلیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے:
    ”رنگ رلیوں کا ذکر آگیا تو یہ بھی سن لیجئے کہ اقبال عنفوان شباب میں اپنے عہد کے دوسرے جوانوں سے مختلف نہ تھے ۔بلا شبہ وہ مصری کی مکھی رہے ،شہد کی مکھی کبھی نہیں بنے لیکن آج بھی ان کے بعض ایسے کہن سال احباب موجود ہیں جو اس گئے گزرے زمانے کی رنگین صحبتوں کی یاد کو اب تک اپنے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۔خود اقبال نے اپنی ابتدائی لغزشوں کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔” (ذکر اقبال :عبد المجید سالک۔مکتبہ جدید پریس ،شارع فاطمہ جناح،لاہور۔سن مئی ۔1983 ص71)
    اسی طرح مشہور مصنف اقبال سنگھ نےOrganiser(آرگنائزر) میں شائع علامہ اقبال پراپنے ایک مضمون میں انار کلی بازار سے ملحق ایک کوٹھے والی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
    ” اقبال نے ایک طوائف کا گلاداب ہی دیا تھا ،اگر اس کو بچانے والے دو دلال نہ آجاتے تو وہ اس کوٹھے سے قبرستان پہنچ گئی ہوتی۔”(ادیبوں کی حیات معاشقہ :مرتب ۔ف۔س اعجاز۔ انشاء پبلیکیشنز۔سن 2014 ص397)
    مشہور محقق رشید حسن خاں اپنے ایک خط میں ڈاکٹر اطہر فاروقی جو اس وقت انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکرٹری ہیں کو لکھتے ہیں:
    ”میں تمھارے لئے بہت کچھ سوچتا ہوں ،بس سوچتا ہوں ،عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتا ۔علامہ اقبال جس طوائف پر مرتے تھے ،اس کی نائکہ نے غلام قادر گرامی سے کہا تھا کہ ارے صاحب !آپ کے شاعر کے پاس ہے کیا ،دو ردیفیں اور چار قافیے،اس سے میرا کیا بھلا ہوگا ۔وہی میرا حال ہے کہ صرف لفظ ہیں۔”( رشید حسن خاں کے خطوط: مرتب ٹی آر رینا۔کلاسک آرٹ پرنٹرز،نئی دہلی ۔سن2011 ص266)
    یہی نہیں اقبال کواپنے وقت کی خواص کی خواتین بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔عبدالمجید سالک کے بقول:
    ” مرزا جلال الدین فرماتے ہیں کہ ایک اور موقع پر بمبا دلیپ سنگھ (شہزادی بمپا سدر لینڈآخری مہا راجہ دلیپ سنگھ کی بیٹی اور مہا راجہ رنجیت سنگھ کی پوتی جو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد قیام پاکستان سے قبل ہی لاہور میں آباد ہوگئیں۔۔۔جو بڑی حسین جمیل تھیں )کی ایک آسٹرین سہیلی آئی وہ علامہ سے ملنے کی مشتاق تھی،ہمیں پھر چائے کی دعوت دی گئی اس دفعہ جو گیندر سنگھ لاہور میں موجود نہ تھے ،صرف میں اور علامہ گئے اور چائے پی کر واپس آگئے۔ایک مرتبہ بمبا نے شالامار چائے کا انتظام کیا ،اس کی آسٹرین سہیلی کے علاوہ ایک اور یورپین خاتون بھی مدعو تھیں ،ایک نے علامہ کی خدمت میں باغ کا ایک پھول پیش کیا ،دوسری نے ایک خوبصورت بلی پال رکھی تھی جو اس کی گود میں بیٹھی تھی۔علامہ کی دونظمیں ‘پھول کا تحفہ عطا ہونے پر ‘اور’کسی کی گود میں بلی دیکھ کر ‘اسی موقع کی یاد میں لکھی گئی ہیں۔”(ذکر اقبال :عبد المجید سالک۔مکتبہ جدید پریس ،شارع فاطمہ جناح،لاہور۔سن مئی ۔1983 ص81 )
    اسی طرح مشہور بوہرہ فیملی کی چشم و چراغ عطیہ فیضی سے متاثر ہونے کی اس وقت کے علماء و فضلا کی اپنی جہتیں تھیں۔ اس معاملے میں علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کے نامہ نامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔علامہ شبلی کے بارے میں ماہر القادری جومشہور رسالہ فاراں کے ایڈیٹر بھی تھے،یوں لکھتے ہیں:
    ”شبلی نعمانی کا بمبئی کے اس تعلیم یافتہ (Advanced)گھرانے میں جب آنا جانا ہوا تو عطیہ فیضی کی عمر تو اس وقت بیس بائیس سال کی رہی ہوگی شبلی مولانا ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھے اور شاعر کتنا ہی پارسا اور صاحب تقویٰ کیوں نہ ہو رنگین مزاج بھی ہوتا ہے ….. مولانا شبلی کی شاعری کو اس دلچسپی نے خاصی شوخی اور رنگینی عطا کی اور ایک خوبرو تعلیم یافتہ جوان لڑکی کی قربت ،دیداراور ہم کلامی کے لطف نے مولانا شبلی کے دامن تقویٰ کو تھوڑا بہت رنگین بھی بنا دیا۔”
    ۔۔۔علامہ شبلی کے تعلق سے اس طرح کا ذکر فی زمانہ معیوب سمجھا جاتا ہے رشید احمد صدیقی نے اس سلسلے میں ایک جگہ لکھا ہے:
    ”سرسید،محسن الملک ،نذیر ،شبلی ،اکبر وغیرہ کے خطوط میں سب سے زیادہ قابل توجہ شبلی کے خطوط ہیں ،جس چیز کو شبلی نے عطیہ فیضی کے نام خطوط میں چھپانے کی کوشش کی ہے اس کو بے نقاب کرنا یوں تو ضروری نہیں ہے کہ خود نقاب نے جلووں کو اور زیادہ نمایاں کردیا ہے ۔شبلی کے ان خطوط سے شبلی کے پرستاروں کو نگاہ نیچی کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔”(رشید احمد صدیقی: شخصیت اور ادبی قدر قیمت۔مرتبہ :پروفیسر ابوالکلام قاسمی۔اتر پردیش اردو اکاڈمی لکھنؤ۔سن1998ص78)
    عطیہ فیضی نے اقبال کی ممبئی آمد پر ان کے اعزاز میں ایوان رفعت میں ایک پارٹی دی تھی ،اس موقع پر عطیہ فیضی کو آٹو گراف دیتے ہوئے علامہ اقبال نے ایک شعر بھی تحریر کیا تھا جو یہ ہے :
    عالم جوش جنوں میں روا کیا کیا کچھ
    کہیے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں
    اس کے بعد سے اقبال کی عطیہ سے کثرت سے ملاقاتیں رہیں۔۔۔۔ اقبال جب اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ پہنچے تو عطیہ فیضی وہاں پہلے سے موجود تھیں۔ یہاں پر جہاں اقبال کی منظور نظر خواتین میں مغرب کی دوشیزائیں تھیں،وہیں مشرق کی یہ حسینہ بھی کسی طرح سے پیچھے نہیں تھی،اپنے روزنامچے میں عطیہ فیضی نے ایک جگہ لکھا ہے :
    ” ایک دن جب وہ اقبال کے دوستوں اور اساتذہ کے ہمراہ ان کے گھر گئیں تاکہ انہیں پکنک کے لئے لے جاسکیں تو سب نے اقبال کو مراقبے میں مستغرق پایا وہ جانے کب سے دنیا و ما فیا سے بے خبر عالم بے خودی میں کھوئے ہوئے تھے د وستوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ اقبال کو ہوش میں نہ لا سکے ۔آخر انہوں نے باقی دوستوں کو باہر بھیجا اور اپنی بے تکلفی اور اپنائیت کا سہارا لیتے ہوئے انہیں اتنا زور زور سے جھنجھوڑا کے وہ ہوش میں آگئے۔”
    اس واقعے کا ذکرعبدالمجید سالک نے بھی اپنی تصنیف’ ذکر اقبال’ میں کیا ہے ۔۔۔۔اسی طرح اقبال جب یورپ سے لوٹے کے بعدان کے اپنی پہلی بیوی سے تعلقات خراب ہوگئے انہوں نے اپنے خط میں اس معاملے کا عطیہ فیضی سے ذکر کیا، غالبا وہ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے ،یا ممکن ہے کہ وہ بالواسطہ طور سے عطیہ کو ہی پرپوز کرنا چاہ رہے ہوں۔جس کے جواب میں عطیہ نے ان کو لکھا ” اقبال تمہیں دوسری بیوی کے بجائے ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔ ”
    اس کے باوجود اقبال نے دوسری اور تیسری شادی بھی کی ان کا دوسرا نکاح گلاب الدین وکیل نے موچی دروازے کے ایک کشمیری خاندان کی لڑکی سے کروایا ، مگر کچھ گم نام خطوں کی وجہ سے علامہ غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے رخصتی نہ ہو سکی۔اسی بیچ میں اقبال نے تیسری شادی لدھیانہ میں کرلی۔اسی دوران اقبال پر منکشف ہواکہ کشمیری لڑکی کا دامن پاک ہے۔ انہوں نے پھر فورا ہی مرزا جلال الدین کی مدد سے از سر نو اس لڑکی سے نکاح کرکے رخصتی کروالی۔
    بقول عبد المجید سالک مرزا جلال الدین کا بیان ہے
    ”اقبال جب آٹھ دس دن کے بعد واپس آئے تو بڑی گرمجوشی کے ساتھ ان سے ملے اور فرمایا’ اب میں بالکل مطمئن ہوں اور اپنے آپ کو جنت الفردوس میں خیال کرتا ہوں ۔”مرزا صاحب کا بیان ہے کہ اس خاتون سے(جو جاوید، منیرہ کی والدہ ہیں)شادی ہوجانے کے بعد اقبال نے کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ،ساری رنگ رلیاں ختم ہوگئیں۔” (ذکر اقبال :عبد المجید سالک۔مکتبہ جدید پریس ،شارع فاطمہ جناح،لاہور۔سن مئی ۔1983 ص70 )
    اسی طرح اقبال کے بارے میں خود ان کے صاحب زادے چیف جسٹس پاکستان جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت ”اپنا گریباں چاک” میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔مثلا وہ والد کے ساتھ قیام بھوپال کے دوران پیش آئے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ”ہم اور لوگوں کے یہاں بھی کھانے پر مدعو ہوتے ۔ایک بار ہم کسی کھانے سے لوٹ رہے تھے ۔والد نے گاڑی میں مسز سروجنی نائیڈو (ہندوستان کی معروف انگریزی شاعرہ جنہیں والد نے اپنی طالب علمی کے زمانے سے لندن میں جانتے تھے)کو تو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔سامنے کی سیٹوں پر ڈرائیور گارڈ بیٹھے اور مجھے علی بخش کے ہمراہ ڈگی میں بیٹھنا پڑا جو مجھے بہت ناگوار گزرا لیکن میں نے اس کا کسی سے ذکر نہ کیا ۔”(اپنا غریباں چاک :ڈاکٹر جاوید اقبال ۔سنز میل پبلی کیشنز،لاہور۔سن 2003ص31)
    اسی طرح اسی کتاب میں ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں:
    ”ماہ رمضان میں گھر میں والدہ اور دیگر خواتین روزے رکھتیں اور قران شریف کی تلاوت کرتیں ۔گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے البتہ میرے والد علامہ اقبال شاز و نادر ہی روزہ رکھتے تھے اور جب رکھتے تھے تو ہر چند گھنٹوں کے بعد علی بخش کو بلواکر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔”(اپنا غریباں چاک :ڈاکٹر جاوید اقبال ۔سنز میل پبلی کیشنز،لاہور۔سن 2003ص19)
    میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دوشیزائوں سے فیض کی بڑھتی قربت کو دیکھ کر ایک مرتبہ کسی نے فیض کی بیوی الیس فیض سے پوچھا کہ کیا آپ کو فیض کا اس طرح سے دوشیزائوں سے ملنا بُرا نہیں لگتا؟۔اس پر الیس فیض نے جو جواب دیا وہ بڑا ہی عبرت انگیز ہے وہ بولیں’شاعر رومانس نہیں کرے گا تو مزدوری کرے گا۔”
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS