مذہبی جنون یا خودکش قانون

0

تاناشاہیکی تاریخ کہتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ریاست کے لیے تاناشاہ بن کر حالات کو قابو میں کرلیتا ہے تو اس ملک کی تصویر بدل جاتی ہے۔ لیکن ذاتی مفاد میں خود کو ملک سے بڑا سمجھنے والا تاناشاہ ریاست کو پاتال میں پہنچا دیتا ہے۔ جیسے پہلی عالمی جنگ کے بعد 1923میں کنگال ہوئے جرمنی کی مہنگائی کی شرح 29,500فیصد فی ماہ تھی لیکن اسی وقت کی نازی پارٹی کے لیڈر ایڈولف ہٹلر نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا اور ’لینڈمارک‘ کرنسی کی جگہ ’سکیور مارک‘ چھاپ کر اس بحران سے ملک کو نکالا۔ ٹھیک ایسے ہی پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919میں ترکی کو قومی تحریک کا لیڈرمصطفی کمال پاشا کی شکل میں ملا اور اس کے بعد ترکی اسلامک ورلڈ کے سب سے ترقی پسند ملک کے طور پر کھڑا ہوا۔ اس لیے مصطفی کمال پاشا آج بھی ترکی میں ’اتاترک‘ یعنی ترکی کے والد سمجھے جاتے ہیں اور ہٹلر کو ماڈرن جرمنی کا پروڈیوسر سمجھا جاتا ہے۔ اب ان دونوں ممالک میں جرمنی بہتر نظام کی وجہ سے آگے بڑھ گیا لیکن تقریباً 100سال بعد ترکی کی ترقی کو مذہب کے لبادے میں ڈھک دیا گیا۔
دراصل مذہب کی بے سر پیر کی تشریح اور ذاتی مفاد کے لیے اسے توڑنے مروڑنے کا جنون اکثر پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہوتا ہے۔ لیکن مغربی ایشیائی ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے تو کلہاڑی پر ہی پیر مار دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کبھی اپنی لبرل جمہوریت اور اونچی شرح نمو کے سبب مسلم ہی نہیں بلکہ کئی مغربی ممالک کے درمیان بھی جدید اور خوشحال معیشت کے ماڈل کے طور پر دیکھا جانے والا ملک ترکی آہستہ آہستہ کنگالی کی کگار کی جانب بڑھا رہا ہے۔ ملک کی کرنسی لیرا ڈالر کے مقابلہ اب تک کی سب سے نچلی سطح پر چل رہی ہے اور مہنگائی بے قابو ہوکر 21فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے سبب سستی بریڈ کے لیے کرانہ کی دکانوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ رہی ہیں، دواؤں، دودھ اور ٹائلیٹ پیپرس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، گیس اسٹیشنوں میں گیس ختم ہوگئی ہے اور قرض نہ ادا کرپانے کے سبب کسانوں نے اپنی زمینیں چھوڑ دی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ بے روزگاری اور مہنگائی سے ترکی کے لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔
ترکی کی معیشت کی اس ’کایاپلٹ‘ کے پیچھے اردگان کے مسلم دنیا کا خلیفہ بننے کے جنون کو ’قصوروار‘ بتایا جارہا ہے۔ اردگان اسلام کا بڑا لیڈر بننے اور مسلم دنیا پر حکومت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس لیے ترکی میں تمام اصول و ضوابط کے ساتھ ہی معاشی پالیسی بھی شریعت کی طرز پر تیار کی جارہی ہے۔ دراصل شریعت سود(رِبا) دینے یا لینے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں، ’رِبا‘ یا پیسہ جمع کرنے یا اُدھار دینے سے حاصل سود کو حرام سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی ریاستی تعاون یافتہ ادارے جو شرح سود دیتے ہیں، وہ کافی کم رکھی جاتی ہے۔ اردگان اس کے نتائج کو سمجھے بغیر اسی ماڈل کو ترکی میں دہرانا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ترکی میں شرح سود میں اضافہ اور مہنگائی کو قابو میں کرنے کے سب سے بنیادی معاشی اصولوں کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے اور ایسا مشورہ دینے والے وزیرمالیات اور سینٹرل بینک کے گورنر کو برخاست کردیا گیا ہے۔ اردگان کے اس طریق کار کو شدت پسند ووٹ بینک کو خوش کرکے سال2023میں ہونے جارہے الیکشن میں اپنی کرسی بچانے کی کوششوں سے وابستہ کرکے دیکھا جارہا ہے۔ اس کے لیے اردگان نے اعلیٰ سود کی شرح کے لیے ’سبھی برائی کی جڑ‘ اور سود، مہنگائی اور زرمبادلہ کی شرح کے لیے ’شیطان کے مثلث‘ جیسے نئے الفاظ بھی ایجاد کیے ہیں۔
جدید اور ترقی پذیر دنیا کو یہ بھلے ہی مضحکہ خیز لگے، لیکن تقریباً 2.2ٹریلین ڈالر کے سائز والی عالمی اسلامک مالیاتی دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی معاشی پالیسیوں میں بنیادی طور پر ’شریعہ قانون‘ کے اصولوں پر کام کرتے ہیں۔ جیسے ’اسلامک بانڈ‘ حلال یعنی شریعت کے مطابق ہے، کیوں کہ انہیں وہ ادارے جاری کرتے ہیں جو شراب، جوا جیسے غیراسلامک سمجھے جانے والے پروڈکٹس یا معاشی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح شریعت میں سٹّا کاروبار ممنوع ہے، اس میں املاک کو اکثر کاغذ پر ہی دکھایا جاتا ہے۔
بیشک یہ اسلامی معاشی اصول ساتویں صدی یا اس سے بھی پہلے کی معیشت کے لیے مؤثر رہے ہوں، لیکن جدید دور میں ان کی مطابقت اب صرف شدت پسندی کو تقویت دینے کے طور پر ہی دیکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ایسے میں ترکی کے مستقبل کو سمجھنا ہو تو پاکستان کے حال سے بہتر کوئی دوسری مثال نہیں نظر آتی۔ وزارت عظمیٰ کی تین سال کی مدت کار میں عمران خان نے بھی پاکستان کی معیشت کو 19ارب ڈالر کی چپت لگادی ہے۔ پاکستان پر 45لاکھ کروڑ روپے کا قرض ہے اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق وہ قرض میں ڈوبے ٹاپ-10ممالک میں شامل ہے۔ آج ہر پاکستانی شہری اوسطاً 1.75لاکھ روپے کے قرض میں ڈوبا ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کے لیے عمران خان نے گزشتہ کچھ دنوں میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کو کرایہ پر اٹھانے سے لے کر سرکاری گاڑیاں، سابق وزیراعظم نوازشریف کی 8بھینسیں اور پاکستان میں کثرت سے پیدا ہونے والے گدھے تک فروخت کیے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کا معاملہ اب ڈیبٹ سروس سسپینشن اینی شیٹو کے تحت آگیا ہے یعنی اس پر اتنا غیرملکی قرض ہوچکا ہے کہ اسے اب اور اُدھار نہیں دیا جاسکتا ہے۔پاکستان کے لیے ’کریلا وہ بھی نیم چڑھا‘ والی بات یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے وہ فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف کی اس بدنام گرے لسٹ سے بھی باہر نہیں نکل پایا ہے جس میں منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی نہ کرکے دہشت گرد گروپوں کو معاشی طور سے حمایت دینے والے ممالک میں رکھا جاتا ہے۔ معاشی بدحالی کے ساتھ ہی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو حمایت دینے کے معاملہ میں ترقی بھی اب پاکستان کے نقشہ قدم پر چل کر اس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہوگیا ہے۔ طویل عرصہ تک ترکی نے دہشت گردی کی معاشی کفالت کے منی لانڈرنگ راستہ کے خلاف سخت رُخ اپنایا لیکن حالیہ دنوں میں اپنی گھریلو سیاست سے حوصلہ افزااردگان کی پاکستان سے نزدیکی میں اضافہ ہوا ہے اور جہادی دہشت گردی پر دونوں ممالک کو ایک ہی زبان بولتے دیکھا گیا ہے۔
بالخصوص گزشتہ ایک دہائی سے ترکی جہادی گروپوں کی موجودگی والے ہر اس اسٹیج میں نہ صرف حصہ دار رہا ہے بلکہ اس کا رہنما بننے کی دوڑ میں بھی شامل رہا۔ ناگورنو-کاراباخ کا قصہ ابھی زیادہ پرانا نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان کے لیے ترکی میں دلچسپی کشمیر کے سبب پیدا ہوتی ہے جس معاملہ میں وہ اقوام متحدہ تک میں پاکستان کی حمایت کرچکا ہے۔ اب ایسی خبریں بھی ہیں کہ کشمیر کو غزہ بنانے کی تاک میں بیٹھا پاکستان اپنا منصوبہ پورا کرنے کے لیے ترکی کی تیمارداری میں مصروف ہے۔ کشمیر میں جہاد کی نئی بریگیڈ تیار کرنے کے لیے پاکستان نے پی او کے کے بیش قیمتی حیاتیاتی سرمایہ کو افزودگی کے نام پر ترکی کو سونپ کر اس کی اس خطہ میں انٹری کروا دی ہے۔ کشمیر ہی نہیں، فرانس کو سیکولرزم کا سبق دینے سے لے کر افغانستان میں طالبان کی پیش رفت کو طے کرنے میں ترکی اور پاکستان کا کردار کٹّر دوستوں والا رہا ہے۔
بیشک دہشت گردی کو پالنے پوسنے کی اس فطرت کے پیچھے کا مقصد اسلامی دنیا میں اپنا دبدبہ اور رسوخ قائم کرنا ہو، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ترقی پر تباہی کو ترجیح دے کر مذہب کا ایسا خطرناک گٹھ جوڑ بنانے والے ہر ملک کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے-پھر چاہے وہ پاکستان ہو یا ترکی یا پھر کوئی اور۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS