پاکستان میں افغانستان پر اجلاس

0

بیشتر عالمی لیڈران انسانیت کی باتیں کرتے ہیں مگر سچائی یہی ہے کہ جو لوگ طاقت دکھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انہیں ہی اپنے پالے میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالات زیادہ شام کے خراب ہیں مگر عالمی برادری کی توجہ کا مرکز افغانستان ہے۔ اقتدار پر طالبان کے قابض ہونے کے بعد سے اس پر اجلاسوں کا دور جاری ہے، نیا اجلاس پاکستان میں 19 دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے۔ اس میں او آئی سی یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے ممبر ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ امریکہ، فرانس، جرمنی، جاپان، یوروپی یونین کے علاوہ مالیاتی اداروں کے نمائندوں کی شرکت متوقع ہے۔ افغان وفد کی قیادت افغانستان کے کارگزار وزیر خارجہ امیر خان متقی کریں گے۔ اس اجلاس کا انعقاد افغانستان کی اقتصادی حالت اور اس کے انسانی بحران کا خیال کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا اس اجلاس کے لیے پاکستان ہی بہتر ملک تھا؟
سوویت یونین کی افغان جنگ میں امریکہ نے پاکستان کے توسط سے افغان جنگجوؤں کی مدد کی تھی، امریکی ان افغان جنگجوؤں کو مجاہدین کہتے تھے۔ بعد میں یہ مجاہدین امریکہ کے لیے دہشت گرد بن گئے، ان سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے افغان جنگ شروع کی تو پاکستان بظاہر اس کے ساتھ کھڑا نظر آیا، اس وقت کے پاک سربراہ جنرل مشرف نے بار بار یہ بتانے کی کوشش کی کہ دہشت گردی مخالف جنگ میں پاکستان، امریکہ کے ساتھ ہے مگر عہدے سے ہٹنے کے بعد ان ہی مشرف نے یہ بات بتائی تھی کہ امریکہ کے نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے پاکستان کے انٹلیجنس ڈائریکٹر سے یہ بات کہی تھی کہ پاکستان یا تو دہشت گردی مخالف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے یا ’سنگی دور میں واپس جانے‘ کے لیے تیار رہے۔ ظاہر ہے، پاکستان نے خود کو ’سنگی دور میں واپس جانے‘ سے بچانے کے لیے بظاہر ہی امریکہ کی مدد کی۔ اسی لیے اسامہ بن لادن کی تلاش امریکہ افغانستان میں کرتا رہا جبکہ یہ تلاش پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ختم ہوئی۔ اس وقت یہ بات بڑی حد تک قابل فہم ہوگئی کہ افغان جنگ میں پاکستان کی حقیقت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر بننے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کا پاکستان کے خلاف سخت رویہ رہا مگر صدارت کے آخری دنوں میں وہ بھی امریکیوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پاکستان کے تعاون کے متلاشی نظر آئے۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ امریکی لیڈران کیسے ہیں جو ایک طرف تو دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی پاکستان سے مدد چاہتے ہیں جو اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں ناکام ہے مگر ٹرمپ افغانستان میں پاکستان کا رول سمجھ چکے تھے،البتہ یہ بات عالمی برادری نے پوری طرح اس وقت سمجھی جب 4 ستمبر، 2021 کو آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان کا دورہ کیا، طالبان لیڈروں سے ملاقات کی۔ بعد میں پاکستان میں یہ بات موضوع بحث بنی کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان دورے میں جلد بازی کیوں کی۔ غالباً اسی وجہ سے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی چیف بنایا گیا۔ اسی دوران یہ خبر آئی کہ پاک حکومت تحریک طالبان پاکستان سے خفیہ مذاکرات کر رہی ہے اور یہ مذاکرات حقانی نیٹ ورک کے لیڈر اور افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی ثالثی میں کیے جا رہے ہیں۔ ابتدا میں پاک حکومت نے اس طرح کے مذاکرات کی تردید کی مگر اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی۔ پاکستان میں لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاک حکومت پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں قتل ہونے والے 133 بچوں سمیت 149 لوگوں کی ہلاکتوں کو کیا بھول گئی؟ اگر پاک حکومت نے دہشت گردی سے نجات پر توجہ دی ہوتی تو آج کراچی میں دھماکہ نہیں ہوتا، 14 لوگوں کی جانیں نہیں جاتیں مگر پاک حکومت نے نہ دہشت گردی کے حوالے سے ذمہ داری سمجھی اور نہ عالمی برادری نے سنجیدگی سے اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ دہشت گردی کے خاتمے میں خود اس کا بھی استحکام ہے۔ پہلے امریکہ جیسے ملکوں کو یہ لگتا تھا کہ افغان جنگ میں پاکستان کا ساتھ اسے فتح سے ہم کنار کرے گا اور آج پاکستان مسلسل یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں استحکام کے لیے اس کا رول اہم ہے اور جو ممالک افغانستان کے استحکام میں تعاون دیں گے، اس خطے میں ان کا پلڑا بھاری رہے گا، کیونکہ ایک طرف افغان جنگجو سوویت یونین کے بعد امریکہ کو شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں تو دوسری طرف پوشیدہ یہ بھی نہیں کہ پاکستان نے ان کی پشت پناہی کی ہے۔ اس اجلاس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ آنے والے وقت میں افغانستان کی دِشا اور دَشا کیا ہوگی، یہ خطہ امریکہ اور یوروپی ملکوں کے لیے اتنا اہم کیوں ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS