مصر و ترکی کے درمیان مصالحت سے لیبیا میں استحکام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے!

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

مشرق وسطیٰ میں ان دنوں بدلاؤ کی جو ہوا چل رہی ہے اس سے بہتر اور مستحکم مستقبل کی امید پیدا ہو چلی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اچانک سے کوئی ایسا سیاسی یا عسکری بھونچال اس خطہ میں نہ آ جائے کہ ساری امیدوں پر پانی پھر جائے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک آپس میں ایک دوسرے سے پھر بر سرپیکار ہوجائیں یا زیادہ مناسب الفاظ میں یہ کہا جائے کہ وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف اسی طرح استعمال ہونے لگ جائیں جیسا کہ اب تک اس خطہ کی تاریخ رہی ہے۔ اس کے لئے اس بات کی سخت ضرورت ہوگی کہ رجائیت کی جو فضاء قائم ہوئی ہے اس کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے اور اگر کسی مسئلہ پر اختلاف کی نوبت آتی بھی ہے تو اس کو سیاسی اور سفارتی وسائل سے حل کرنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ سعودی عرب اور ایران نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے اور سات برسوں کے قطع تعلق کے بعد دونوں ملکوں نے تعلقات کی بحالی کو وقت اور حالات کے تقاضہ کے تحت ضروری سمجھا ہے۔ اسی سمت میں ترکی اور مصر کی قیادتیں بھی قدم بڑھا رہی ہیں جو نہایت مستحسن قدم ہے اور ہر قیمت پر ایسی کوششوں کو نہ صرف سراہا جانا چاہئے بلکہ ان کو بار آور بنانے کے لئے جو ضروری وسائل مطلوب ہوسکتے ہیں ان کی فراہمی کے لئے خطہ کے دیگر ممالک کو بھی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ پورا خطہ امن و امان اور ترقی و خوشحالی میں دنیا کے سامنے قابل اتباع مثال بن کر ابھر سکے۔ سفارتی سطح پر اس کو ایک خوش آئند قدم ہی سمجھا جائے گا کہ 10 برسوں کے بعد ترکی نے پہلی بار 18 مارچ 2023 کو اپنے وزیر خارجہ چاؤش اوغلو کو مصر کے آفیشیل دورہ پر روانہ کیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2013 کے اندر جو سیاسی حالات مصر میں پیدا ہوئے تھے ان کے تناظر میں ترکی نے مصر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کر لیا تھا اور دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفراء کو واپس بلا لیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ عرب بہاریہ کے نتیجہ میں جب سابق مصری صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل ہوکر جیل جانا پڑا تھا تو اس کے بعد اخوان المسلمین کی پارٹی کو وہاں کے عوام نے بھاری اکثریت سے ووٹ دے کر فتح یاب کیا تھا اور مصر کے نئے صدر کے طور پر اخوان کے قد آور لیڈر محمد مرسی کا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ محمد مرسی نے اپنی سیاسی بصیرت کی بناء پر یہ اندازہ کیا تھا کہ مصر جہاں پر ہر چیز فوج اور سرمایہ داروں کے قبضہ میں ہے اور کسی بھی طرح حکومت میں فوج کی نمائندگی کے بغیر آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا اور اسی لئے اس وقت کے فوجی جنرل عبدالفتاح السیسی کو انہوں نے اپنا وزیر دفاع متعین کر دیا تھا۔ لیکن یہی حسن نیت محمد مرسی کے لئے مصیبت بن گیا اور السیسی نے Counter Revolution کے ذریعہ محمد مرسی کو حکومت سے بے دخل کر دیا تھا۔ مرسی سمیت ان کے سیکڑوں حامیوں کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ چونکہ رجب طیب اردگان کی پارٹی حزب العدالۃ و التنمیۃ کو فکری طور پر اخوان سے یک گونہ لگاؤ ہے لہٰذا انہوں نے ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کو فوجی بغاوت کے ذریعہ گرانے کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا تھا اور سخت ردعمل کے طور پر مصر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کر لیا تھا۔ مصر میں عبدالفتاح السیسی نے اخوان المسلمین کے ساتھ بڑا معاندانہ برتاؤ کیا۔ اخوان المسلمین پر پابندیاں عائد کرکے اس کی تمام سرگرمیوں کو بند کر دیا۔ اخوان کے وہ تمام سینئر لیڈران جو مصر میں رہ گئے تھے انہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں اور کئی کی تو پس زنداں موت بھی ہوگئی جن میں خود سابق صدر محمد مرسی شامل ہیں جن کا انتقال 2019 میں جیل کے اندر ہوگیا۔ گویا السیسی نے جمال عبدالناصر کے دورِ بربریت کا کئی گنا شدت کے ساتھ اعادہ کر دیا تھا۔ اخوان کے کئی رہنما مصر چھوڑنے اور نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ ترکی نے بطور خاص ان رہنماؤں کو پناہ دیا اور وہاں انہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی خاصی آزادی بھی دی گئی۔ اخوان نے ترکی کی سر زمین سے اپنے چینلوں کو چلایا اور عبدالفتاح السیسی کی حکومت کی زیادتیوں پر سخت تنقیدیں کرتے رہے۔ ان اسباب کی بناء پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے۔ لیکن یہ باتیں تب کی ہیں جب طیب اردگان کی قیادت میں ترکی کے اقتصاد کو عروج نصیب ہو رہا تھا اور وہ پورے طور پر ایک اسلام پسند سیاسی لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آج کی ترکی کے حالات بالکل بدل چکے ہیں اورخود مشرق وسطی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں لہٰذا رجب طیب اردگان جو ہمیشہ اپنے Pragmatism کے لئے معروف رہے ہیں انہوں نے بھی اپنی امیج میں بدلاؤ پیدا کر لیا ہے۔ اب انہیں احساس ہوگیا ہے صرف اسلام پسندی کے نعرہ سے ان کے اقتصادی اور خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل حل نہیں ہوں گے اور اسی لئے انہوں نے مشرق وسطیٰ کے ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے جن کے ساتھ کبھی ان کا سخت اختلاف ہوا کرتا تھا۔ ان ممالک کی فہرست کافی طویل معلوم ہوتی ہے لیکن قابل ذکر ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ہیں جن کے ساتھ ترکی نے اپنے تعلقات بہت حد تک استوار کر لئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک شام کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔ مصر کے ساتھ بھی حالات کو بہتر کرنے کی غرض سے ہی اپنی سرزمین پر سرگرم عمل اخوان کے چینلوں پر لگام لگایا ہے اور انہیں مصر کے خلاف تیکھے تبصروں سے منع کر دیا گیا ہے۔ مصر نے بھی اس کے بدلہ اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کر لی ہے اور ترکی کے تئیں انفتاح میں اضافہ کیا ہے جس کا بیّن ثبوت اس وقت سامنے آیا جب مصر نے 6 فروری 2023 کو ترکی میں آئے تباہ کن زلزلہ کے بعد اپنے وزیر خارجہ سامح شکری کو ترکی روانہ کیا تھا اور اسی دوران ترکی کے وزیر خارجہ کو بھی مصر کی زیارت کی دعوت پیش کی گئی تھی۔ وزراء خارجہ کی سطح کا یہ پہلا دورہ تھا جو دس سالوں کی مدت میں پہلی بار دونوں ملکوں کے درمیان وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ ویسے مصر اور ترکی کے درمیان استکشافی ملاقاتوں کا سلسلہ 2021 میں ہو چکا تھا جن میں سے پہلی ملاقات قاہرہ میں 5 مئی 2021 کو منعقد ہوئی تھی جب کہ دوسری ملاقات اسی سال ستمبر کی 9 کو تاریخ مصر کی راجدھانی میں منعقد کی گئی تھی۔ لیکن یہ ملاقاتیں بالکل ابتدائی درجہ کی تھیں اور ان میٹنگوں میں شامل ہونے والے بھی وزراء نہیں بلکہ سفارت کار ہوا کرتے تھے۔ البتہ اس کے بعد کی ملاقاتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ بڑی تیزی کے ساتھ وزراء خارجہ اور دونوں ملکوں کے صدور کی سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کو قریب لانے میں قطر نے کلیدی کردار نبھایا تھا جب انہوں نے 20 نومبر 2022 کو فیفا ورلڈ کپ کے افتتاحی پروگرام کے لئے دونوں لیڈروں کو دعوت دی تھی۔ اس موقع پر دونوں قائدین نے مصافحہ کیا تھا اور مختصر بات چیت بھی کی تھی۔ یہ ملاقات گرچہ بہت مختصر تھی لیکن سفارتی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ تقریبا ایک دہائی کے بعد برف کی تہیں پگھل رہی تھیں۔ اس کے بعد ترکی کے زلزلہ کے بعد دوبارہ دونوں لیڈران نے فون پر بات چیت کی جب عبدالفتاح السیسی نے تعزیت اور امداد فراہمی کی غرض سے اردگان سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ السیسی اور اردگان کی پراگماتی شخصیتوں نے بحران کی کیفیت کو ختم کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے اور اس کا امکان ہے کہ جلد ہی دونوں ممالک سفراء کا تبادلہ بھی کریں گے۔ مکمل طور پر سفارتی تعلقات کی بحالی میں بنیادی طور پر دو مسائل سد راہ ہیں۔ ایک تو مصر اور ترکی دونوں کا اثر و رسوخ لیبیا میں کافی گہرا ہے اور دونوں وہاں کی حریف پارٹیوں اور جماعتوں کو حمایت فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں دونوں کے درمیان اختلاف کی نوعیت کسی قدر گہری ہے اس کا تعلق شرق متوسط میں بحری حدود کے تعین سے ہے اور قدرتی ذخائر خاص کر گیس کو نکالنے کے سلسلہ میں دونوں جھگڑتے رہتے ہیں۔ ترکی کی ترجیحات میں یہ امر شامل ہے کہ وہ بحری حدود اور گیس کے ذخائر سے متعلق مسئلہ کو حل کرے اور ’شرق متوسط گیس فورم‘ میں شمولیت حاصل کرلے۔ لیکن مصر کی شرط یہ ہے کہ اس مفاہمت کی راہ تبھی ہموار ہوسکتی ہے جب لیبیا کے مسئلہ پر پائے جانے والے اختلافات کا ازالہ کیا جائے۔ دیکھا جائے تو ان دونوں کے بے لچک موقف سے لیبیا کے بحران میں اضافہ ہی ہوا ہے اور دوسری قوتوں نے اس اختلاف کا فائدہ اٹھایا ہے اور لیبیا کو استحکام نصیب نہیں ہو پایا ہے۔ اب دونوں ملکوں کے مفاد میں یہی ہوگا کہ وہ لیبیا کے مسئلہ کا سیاسی حل نکالیں کیونکہ لیبیا کو اس عبوری مرحلہ میں کامیاب بنانے میں ہی دونوں کا مفاد مضمر ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک ایک مشترک زمین تیار کریں اور لیبیا کو سیاسی، عسکری اور اقتصادی طور پر کامیاب بنانے کے لئے اپنا تعاون پیش کریں۔ اس سلسلہ میں پہلی ذمہ داری مصر پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ترکی پر یہ دباؤ بنانا بند کرے کہ وہ وہاں سے اپنی فوج کو نکالے۔ ماضی میں دونوں ممالک نے جو غلطیاں کی ہیں ان سے سیکھنے کا اس سے بہتر وقت نہیں ملے گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ مصر اور ترکی دونوں ہی چاہتے ہیں کہ لیبیا میں سرکاری اداروں اور فوج کی تقسیم کا جو سلسلہ طویل مدت سے جاری ہے اس کا خاتمہ ہو اور سیاسی و سماجی اور اقتصادی استحکام کا ماحول قائم ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مصر کے سیکورٹی سے متعلق خدشات بھی ختم ہوجائیں گے اور ترکی کو بھی لیبیا میں اپنے مفادات کے تحفظ میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک جو فوج اور آبادی کے لحاظ سے اس خطہ میں دو سب سے بڑی طاقتیں ہیں وہ اپنے اختلافات کو دور کرکے مضبوط مصالحت کی بنیاد رکھیں اور اس نئے مشرق وسطیٰ کی تصویر میں رنگ بھرنے کا کام کریں جس میں منافست کے بجائے آپسی تعاون کی روح جھلکتی نظر آ رہی ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS