مسلم ریزرویشن کا خاتمہ

0

مہاراشٹر کے بعد کرناٹک میں بھی مسلم ریزرویشن ختم کردیا گیا۔ 24مارچ کو اچانک بی جے پی کی سربراہی والی سرکار نے اسے ختم کرکے ریاست کی 2اکثریتی برادری ووکالیگااور لنگایت میںمساوی طور پر تقسیم کردیا، حالانکہ ان کوپہلے ہی سے مسلمانوں سے زیادہ ریزرویشن دیا جارہا تھا، مسلم ریزرویشن ختم کئے بغیر مزیددیاجاسکتاتھا۔پھر بھی کابینہ نے مسلمانوں کا کوٹہ انہیں دے دیا ۔ ریاستی سرکار چاہتی تو مسلم ریزریشن ختم کئے بغیر ووکالیگااورلنگایت طبقات کا کوٹہ بڑھاسکتی تھی ۔ ویسے بھی مسلم اوبی ریزرویشن ختم کرنے کے بعدبھی ریاست میں سپریم کورٹ کی طرف سے مقررہ ریزرویشن کی حد50سے زیادہ 56فیصد ہوگئی ہے ۔ سرکار نے اسمبلی الیکشن سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل یہ فیصلہ کیا ۔ اس لئے اسے انتخابی فائدے ونقصان سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔اپوزیشن پارٹیاں اس فیصلہ پر سخت نکتہ چینی کررہی ہے ۔مسلم تنظیمیں بھی فیصلے کی مخالفت کررہی ہیں بلکہ کچھ تنظیموں نے کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے ۔کرناٹک وقف بورڈ نے بھی فیصلہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مسلم ریزرویشن بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ غورطلب امر ہے ک کیٹگری 2اے ، 3اے اور2 ڈی کوٹہ برقرار ہے ، ہٹایا گیا توصرف کیٹگری 2بی مسلم اوبی سی کوٹہ ۔بہرحال سرکار نے مسلم ریزرویشن ختم کرکے اس کے تحت آنے والے معاشی طورپرکمزور مسلمانوں کو 10فیصد والے ای ڈبلیوایس کوٹہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے ، جہاں انہیں ریزرویش ایسے ہی نہیں ملے گا بلکہ اس کیلئے انہیں برہمنوں ، ویشیوں ،مدالیار، جین اوردیگر طبقات کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ اپوزیشن لیڈر سدارمیانے تو فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوبی سی مسلمانوں کو ای ڈبلیوایس میں شامل کرناقانونی طورپر اتنا آسان نہیں ، جتنی آسانی سے سرکارنے کہاہے ۔ای ڈبلیو ایس مرکزی کوٹہ ہے ، کسی ایک ریاست میں اسے کمیونٹی اوربرادری کے حساب سے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔مسلمانوں کو اس میں شامل کرنے کیلئے یکساں قانون کی ضرورت ہوگی ۔ کانگریس نے اقتدارمیں آنے پر مسلم ریزرویشن بحال کرنے کاوعدہ کیا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق6.11 کروڑکی آبادی والی ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کاتناسب 12.92فیصد اور آبادی 78.93 لاکھ ہے ۔ سابق دیوے گوڑاسرکار نے 1995 میںیہ ریزرویشن دیا تھا ۔تب سے قانونی طورپر برقرار تھا، لیکن اب بی جے پی سرکارنے ختم کردیا۔
کرناٹک پہلی ریاست نہیں تھی ، جس نے اوبی سی مسلمانوں کو علاحدہ ریزرویشن دیا تھا، آندھراپردیش سرکار نے بھی اسی طرح کا مسلم ریزرویشن دیا ۔تملناڈومیں بھی بی سی کیٹگری کے تحت مسلمانوں کو 3.5فیصد ریزرویشن حاصل ہے ۔مہاراشٹر میں بھی سابقہ کانگریس ۔ این سی پی سرکارنے آرڈیننس کے ذریعہ مراٹھااورمسلمانوں کو علاحدہ علاحدہ ریزرویشن دیاتھا ۔ بعدمیں کورٹ نے مسلم ریزرویشن کو ازروئے قانون جائز قراردیا، لیکن مراٹھا ریزرویشن کو غیرقانونی بتاتے ہوئے کالعدم قراردے دیا، تاہم نومبر 2018میں ریاست کی بی جے پی سرکار نے عدالت سے آرڈیننس مسترد ہونے کے باوجودمراٹھوں کیلئے 16فیصد ریزرویشن کا بل اسمبلی سے پاس کرادیالیکن جس مسلم ریزرویشن کو کورٹ نے جائز قراردیا تھا ، اس کے آرڈیننس کو پاس نہیں کرایا ، اس طرح وہ آرڈیننس مدت پوری ہونے کے بعد بے اثر ہوگیا اوراس کے تحت دیا گیا مسلم ریزرویشن ختم ہوگیا ۔مسلم ریزرویشن کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ ایک توبڑی مشکل سے ریزرویشن دیاجا تاہے اور سرکار بدلتے ہی ختم ہوجاتا ہے یا ختم کردیا جاتا ہے ۔ جیساکہ مہاراشٹر اورکرناٹک میں میں ہوا ۔ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کا ریزریشن جس طرح ختم کیا گیا ملک میں ایساکسی بھی کمیونٹی یا برادری کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہان کے ریزرویشن میں توسیع اوراضافہ ہوتا ہے ۔
کتنے سرکاری کمیشنوں اورکمیٹیوں نے قومی اورریاستی سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لیا اورانہیں ریزرویشن دینے کی سفارش کی۔ دیگر برادریوں کی ترقی کیلئے ریزرویشن کی سیاست کی جاتی ہے ، کورٹ اجازت دے یا نہ دے راستہ نکال کرریزرویشن فراہم کیا جاتا ہے، لیکن مسلم ریزرویشن کی مخالفت یہ کہہ کرکی جاتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن فراہم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں کو ریزرویشن دیا گیا ، معاملہ عدالت میں گیا توعدالت نے اس کے جواز پر مہر لگائی ، پھر بھی اسے ختم کردیا جاتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS