افغانستان میں حقیقی آزادی

0

پوری دنیا میں اپنے حکم کا سکہ رائج کرنے والی لامحدود عسکری ا ور اقتصادی قوت امریکہ نے 20 برسوں کی جنوں خیزی کے بعد افغانستان سے اپنی بساط سمیٹ لی ہے۔ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے ہی 30اگست 2021پیر کی نصف رات کو امریکی فوجیوں کا آخری دستہ بھی کابل سے نکل گیا۔آخری امریکی طیارہ سی17-ایس میں سوار ہونے والے آخری فوجی میجر جنرل کرس ڈونے ہیو تھے۔ امریکی انخلا کے فوری بعد طالبان، کابل ایئرپورٹ کے رہ جانے والے باقی حصے میں بھی داخل ہوگئے اور ایئرپورٹ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ خبر ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا پر پورے افغانستان میں جشن کا ماحول ہے اور شہر کابل میں ہوائی فائرنگ کرکے افغانیوں نے اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور انس حقانی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ افغانستان پر امریکی اور ناٹو فورسز کے 20 سالہ قبضے کا خاتمہ ہوگیا، ہم (طالبان) نے افغانستان میں ایک بار پھر تاریخ رقم کی ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد ہمارا ملک مکمل طور پرآزاد ہوگیاہے اورآج افغانستان کو حقیقی آزادی ملی ہے۔
امریکہ کے وزیرخارجہ ا نتونی بلنکن نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج اور اہلکاروں کا انخلامکمل کرچکا ہے، کابل میں سفارتی موجودگی ختم کردی گئی ہے اور اب خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ سے افغانستان اور طالبان کے ساتھ سفارتی معاملات چلائے جائیں گے۔
امریکہ نے 20سال تک ایک ایسی جنگ لڑی جس کا مقصد ’دہشت گردی‘ کا خاتمہ بتایاگیاتھا۔ ستمبر 2001 میں جنگ کاآغاز کرتے ہوئے اس وقت کے امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے گا اورا یسا ممکن نہیں ہوا تو انصاف کو ان تک پہنچا دیا جائے گا۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ’خونخوار نظریات‘ کا حامل دنیا کا ہر دہشت گردتلاش کرکے نیست و نابود نہیں کردیاجاتا۔اشتعال انگیز اور رعونت سے بھرے ہوئے لہجہ میں جارج بش نے یہ بھی کہا تھا کہ دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ہمارے ساتھ ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ ہے جوہمارے ساتھ نہیں رہے گا وہ دہشت گردوں کاساتھی سمجھا جائے گا۔اوراس کے ساتھ ہی القاعدہ کے خلاف امریکہ کا ساتھ نہ دینے والے طالبان پر بم و بارود کی برسات کردی گئی۔
ان 20برسوں کی جنگ میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوا یا نہیں، القاعدہ ختم ہوئی یا نہیں یہ تو امریکہ ہی بتائے گا لیکن ان 20برسوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے اس سے قبل نہیں دیکھا تھا۔ روئے زمین کے سب سے بڑے اسلحہ خانہ کی مالک قوت 96 دوسرے ممالک کے ہمراہ دنیا کی سب سے پس ماندہ اور کمزور قوم پر حملہ آور ہوئی اور پورے ملک کو بدترین غارت گری کا نشانہ بنایا۔ افغانستان کی پہاڑیوں کو ڈیزی کیٹربموں سے ریزہ ریزہ کردیاگیا اور لاکھوں افغانی رزق خاک بنادیے گئے۔ان برسوں میں ہر گزرنے والا دن جہاں افغانیوں کے صبر کا امتحان لیتارہا وہیں امریکہ کی محرومیوں میں بھی اضافہ کرتاگیا۔ 20 برسوں کی بے مقصد جنگ میں امریکہ نے صرف ساڑھے تین کھرب ڈالر ہی خرچ نہیں کیے بلکہ اپنے تین ہزار فوجی اورتقریباً4ہزار امریکی ٹھیکہ داروں کو بھی اس کا ایندھن بناڈالا۔اس جنگ میں ناٹو کے بھی ہزاروں فوجی کام آئے۔ سیکڑوں امدادی کارکن اور درجنوں صحافی بھی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دنیا نے وہ دن بھی دیکھا جب اپنے ’مجرموں‘ کی دہلیز تک ’انصاف‘ پہنچانے کا دعویٰ کرنے والے امریکہ نے ان ہی طالبان اور ’خونخوار نظریات‘ کے حامل دہشت گردوں سے امن معاہدہ کیا اور آج ایک تباہ حال اور بردباد افغانستان ان کے سپرد کرکے رخت سفر باندھ لیا۔
امریکہ بہادر کی رخصتی کے بعداب افغانستان کے حالات کیسے رہیں گے؟ کیاافغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی برادری قبول کرلے گی یا افغانستان ایک بار پھراکیلا پڑ جائے گا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کم و بیش ہر زبان پر ہیں۔لیکن ان کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔طالبان ہرچند کہ امریکہ کی رخصتی کو افغانستان کی حقیقی آزادی سے تعبیر کررہے ہیں۔تاہم موجودہ حالات میں بظاہر ایسا نہیں لگ رہاہے کہ یہ افغانستان کی آزادی ہے کیوں کہ عام افغانی اس تبدیلی سے دہشت زدہ ہیں۔ اپنی جان بچانے کیلئے اپنا ملک چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں اور طالبان کو اپنی جان و مال کا دشمن سمجھ رہے ہیں۔ ایسے حالات کوبہرحال ’آزادی‘ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔جبر، ظلم، زیادتی، طاقت اور دہشت کے زور پر قائم ہونے والی حکومت، چاہے وہ امریکہ کی پشت پناہی میں ہو یا طالبان کی ہو،عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں ہوسکتی ہے۔ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی نے بجاطور پر کہاہے کہ طاقت اور دہشت کی حکومت زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی ہے۔ افغانستان میں حقیقی آزادی اسی وقت آسکتی ہے جب افغانستان کے عوام کو اپنی مرضی سے اپنی حکومت منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔
طالبان خود کو جس کا داعی بتاتے ہیں ’ امرھم شوریٰ بینھم‘کابھی یہی تقاضا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کیلئے باقاعدہ سیاسی عمل شروع کیاجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS