سوڈان میں 9ماہ سے جاری جنگ الجھتی جارہی ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل برہان کمزور پڑ رہے ہیں۔ وہ ایک مکمل اور زیادہ مسلح اور ہوائی فوج کے باجود اپنی پوزیشن کھوتے جارہے ہیں۔
بدلتے حالات میں ان کے حریف ریپڈ سپورٹ فورس (آرایس ایف)کے سربراہ نے ملک کے باہر کے حالات پر توجہ دینی شروع کردی ہے وہ بین الاقوامی برادری میں اپنا رتبہ اور مرتبہ بڑھانے کے لیے براعظم کے کئی ملکوں کا دورہ کررہے ہیں۔ اس سے قبل جب سوڈان میں جمہوری نظام کی بحالی کے لیے سول سوسائٹی کوشش کررہی تھی، وہ ایک فوجی سربراہ کی حیثیت سے آگے بڑھ کر بین الاقوامی اداروں اور کانفرنسوں میں ملک کی نمائندگی کررہے تھے۔ آج بدلے ہوئے حالات میں ریپڈ سپورٹ فورس کے سربراہ محمد حمدان ڈگلو قرب وجوار کے ملکوں میں سفارتی مہم بڑھانے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔بعض حلقوں میں انہوںنے مشرق افریقی ملکوں کی تنظیم ’آئی جی اے ڈی‘The intergovernmental Authority on Development کے ذریعہ سوڈان کی خانہ جنگی میں مصالحتی رول ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، مگر سوڈان کے فوج کے سربراہ جنرل فتح البرہان نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ یہ خانہ جنگی قطعی داخلی معاملہ ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یہ تنظیم سوڈان میں خانہ جنگی کو ختم کرنے کی کوشش اور پیشکش کرچکا ہے، ڈوگلو افریقی ملکوں میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے یوگینڈا بھی چلے گئے ہیں اور 6ممالک کے گروپ کے لیڈران سے انھوں نے ملاقات کی۔ جنرل برہان نے ڈوگلو کو یوگینڈا میں بلائے جانے کی نکتہ چینی بھی کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے یوگینڈا کی معتربیت متاثر ہوگی۔ جنرل برہان کو لگتا ہے کہ یوگینڈا کی وجہ سے کئی طرف سے ڈوگلو کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ مستقبل میں ان کی پوزیشن کو خراب کرسکتا ہے۔ مبصرین کو بھی لگتا ہے کہ یہ صورت حال جنرل برہان کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی ہے ۔ جنرل برہان قرب وجوار کے ملکوں میں الگ تھلگ پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ خانہ جنگی سے قبل وہ پوری دنیا میں بطور سربراہ مملکت کے طورپر پیش کرتے تھے۔
گزشتہ 9ماہ سے جاری جنگ میں ابھی تک 13ہزار کی موت ہوچکی ہے۔ جنگ میں تباہی کے اعدادوشمار رکھنے والے ادارے Armed Conflict Location and Event Data Projectاور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس بحران میں اب تک ساڑھے سات ملین عام شہری جان بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے محفوظ مقامات اور نقل وطن کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
بین الاقوامی ادارے اور اقوام متحدہ نے اپنی بڑی تعداد میں اموات اور عام لوگوں کے بے گھر ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ علاقہ قحط اور بھک مری کا شکار ہے۔ جنگ نے ملک کی معیشت ، اورسیاسی استحکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ سوڈان کی فوج اور ریپڈ سیکورٹی فورس (آر ایس ایف)دونوں پر عام شہریوں کو مارنے، ان کو ایذا پہنچانے اور قید کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ آر ایس ایف پر قبائیلیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ لوٹ مار، آبروریزی کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے الزامات لگے ہیں۔ جنرل برہان کی بوکھلاہٹ کے کئی اسباب ہیں ۔ ان میں سے ایک اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گویترس کا ڈگلو کے ساتھ رابطہ قائم کرنا بھی بتا یا جاتاہے۔
براعظم افریقہ کے سب سے پسماندہ علاقے جیسے قرن افریقہ یا Horn of Africanکہتے ہیں بدترین اور بھوک سے متاثر خطہ کہا جاتا ہے۔ مگر یہ پورا خطہ عالمی سیاست کا بھی اڈہ بن گیا ہے اور مختلف بلاکوں کی طاقتیں اس علاقے پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے کوشش کرتی رہی ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے بعد بحری راہداریوں پر کنٹرول کرنے کے لیے کئی ممالک بحر احمر اور سوئزنہر میں آمدورفت کو کٹرول کرنے یا اس پر نظر رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح غزہ بحران کے دوران ایران نے بحر احمر اور اس کے قرب وجوار کو متاثر کرنے کے لیے سوڈان پر زور ڈالا تھا کہ وہ اس خطے میں اس کو بیڑہ قائم کرنے کی اجازت دے دے۔
اس بابت ایک رپورٹ والے اسٹریٹ جنرل میں شائع ہوئی اس رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو جانے والے مال بردار جہازوں سے متعلق ایران معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا، مگر سوڈان کی حکومت جو کہ خانہ جنگی کا سامنا کررہی ہے اس بابت کوئی فیصلہ نہیں لے پائی کیونکہ وہاںکوئی بھی فریق اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کو ناراض کردے۔ امریکہ سوڈان میں جنگ بندی کرانے کی کوشش کررہا ہے اور اس سے قبل بھی جب سوڈان میں جمہوری نظام کے قیام کی کوشش کی جا رہی تھی اور سماجی ادارے اور سیاسی جماعتیں تحریک چلا رہی تھیں ۔ امریکہ پوری طرح حالات پر نظر رکھے ہوئے تھا اور فریق کو انسانی حقوق اور جمہوری نظام کی بحالی کی طرف متوجہ کرتا رہتا تھا۔
جنرل برہان اور جنرل اوگلو پر امریکہ اور سعودی عرب جنگ بندی کے لیے کام بھی کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک خانہ جنگی کے خاتمہ اور مصالحت کرانے کے لیے مختلف طریقوں سے دبائو ڈال رہے ہیں۔ سوڈان کے دونوں فریقوں جنرل برہان اورجنرل ڈاگلو کو علاقے کے الگ لگ ممالک حمایت کررہے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب دونوں فریقوں کے ساتھ مذاکرات کرنے اور دونوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کررہاہے۔
اپریل 2023سے جاری خانہ جنگی کو رکوانے کی کئی مرتبہ کوشش ہوئی ہے، مگر ریاض میں سمجھوتہ ہونے کے بعد بھی جنگ بندی نہ ہوپائی ہے۔ کئی ممالک ان ناکامیوں کے باوجود بھی حالات کو حد سے زیادہ بگڑنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ترکی، لبنان ، ایتھوپیا قریبی اور پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے اس خانہ جنگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی منتقلی او رنقل مکانی سے کئی پڑوسی ممالک کی معیشت اور سیاسی استحکام متاثر ہورہا ہے اور افریقہ کے علاقائی سلامتی اور استحکام کو بھی متاثر کرر ہی ہیں۔ n
رمضان:سوڈان میں بھی جنگ بندی کا امکان نہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS