احتجاج بھی جاری ہے اور قتل عام بھی جو چپ رہے گی زبان خنجر۔۔۔

0

امریکہ میں اسرائیل کو دی جانے والی فوجی، اقتصادی مدد کو لے کر اب آوازیں پرزور ہونے لگی ہیں۔ امریکہ میں لگاتار اٹھنے والی ان آوازوں میں ایک نام 25سال کے نوعمر فوجی اہل کار ایرون بشنیلجس نے امریکی فوجیوں کے اندر بے چینی کو ایک آواز دی تو دوسری جانب ملک کے طول وعرض میں غزہ میں جنگ بندی کے حق میںپرزور انداز کے مظاہرے ہورہے ہیں۔ کئی ریاستوں میں جنگ بندی سے معلق قراردادیں پاس ہوئی ہیں تو دوسری جانب سرکاری افسران نے امریکہ کے سرکاری عہدیداروں کے احتجاج کو زوردار ڈھنگ سے اٹھایا۔ امریکہ کے عہدیداران احتجاج کو شروع کرنے والے اولین طبقوں میں سے ہیں اور 7اکتوبر کے بعد اسرائیل کی جارحیت کے شروعاتی دنوں میں جس طرح امریکی قیادت اسرائیل کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اس کو اقتصادی، عسکری، اسٹریٹجک مدد کررہی تھی، یہ کئی اعلیٰ افسران کو گراں گزر رہا تھا۔ لیکن سیاسی عہدوں پر فائز لیڈروں کی اندھی حمایت کی وجہ سے ان کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ اسرائیل امریکہ اور انتظامیہ کو اس لائن کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل کے زور پر اسرائیلی فوج کی ابتدا سے ہی جاری بربریت کوحمایت دیتے رہے ہیںاور اس کانتیجہ آج نظر آرہاہے۔ اسرائیل امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں——حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی سے حمایت حاصل کررہے ہیں۔لیکن تقریباً 31 ہزار افراد کے قتل اور لاکھوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد اب حالات بدل رہے ہیں۔ امریکیوں کا ضمیربیدارہورہاہے۔حد تو یہ ہے کہ آج ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے سخت احتجاج کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ چند روز قبل امریکی نائب صدر کملا ہیرس کو بھی صاف صاف انداز میں کہہ دیناپڑا کہ بہت ہوچکا ہے، جنگ رکنی چاہیے۔ کملا ہیرس کا یہ بیان ان معنوں میں اہمیت کاحامل ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں سب سے پیش پیش تھیں اور اب جوبائیڈن کے سر پر الیکشن میں ڈونالڈٹرمپ کا خطرہ منڈلا رہاہے، لب کشائی پر آمادہ ہوئے ہیں۔ انھوںنے 8مارچ کے ایک پروگرام اسٹیٹ آف یونین اسپیچ میں کہہ دیا ہے کہ غزہ کو سودے بازی کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ خیال رہے کہ اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی رہائی پر ڈورا ڈالنے کے لیے غزہ پر دن بدن بم باری تیز کررہاہے۔ پہلی جنگ بندی کے اختتام کے بعد سے ہی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بربریت آمیز انداز سے فوجی کارروائی کررہاہے۔ اس نے غزہ میں 37ہزار کی ہلاکت کو اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلہ اور سودے بازی کا حربہ کے طورپر استعمال کیا ہے۔ قاہرہ، دوحہ، ریاض، عمان اور مختلف مقامات پر ہونے والے امن مذاکرات میں ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کیا ہے۔ بجلی، پانی، گرم کپڑے، غذائی اجناس اور ادویات وغیرہ کی سپلائی کو موقوف کردیا ہے گزشتہ دو روز قبل یعنی جمعرات 7مارچ کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروںنے غذائی اشیاء کی سپلائی بندوق کی نوک پر روکنے پرببانگ دہل اپنی ناراضگی کااظہار کیا۔ اب الیکشن کے دوران جوبائیڈن نے نسبتاً سخت زبان استعمال کی ہے۔ بائیڈن نے کہاہے کہ اسرائیل غزہ میں اور امداد پہنچانے کی اجازت دے اور یہ کہ انسانی جانوں کو تلف ہونے سے بچانے والے رضاکاروں کو نشانہ نہ بنائے۔ ان کا یہ بیان اس وقت آیاہے کہ حماس نے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات درمیان میں چھوڑ کر واپس ہوگئے۔ حماس کا کہناہے کہ اسرائیل مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہاہے۔اس بدترین بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران غزہ اور فلسطینیوں کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑاکوئی دشمن ہے تو وہ اقوام متحدہ اور اس کی قیادت ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اپنے انتخاب کی شروعات سے ہی اسرائیل کے نشانہ پررہے ہیں بلکہ یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا، ان کے انتخاب میں اسرائیل اور صہیونیوں نے بساط بھر کوششیں کرلی تھیںکہ وہ یہ سکریٹری جنرل بن پائیں۔ اب اسرائیل مختلف مرحلوں پر اقوام متحدہ کے اداروں پر دہشت پسندی کی الزام تراشی کرکے اور بے بنیاد الزام لگاکر داغدار کرنے اور اس عظیم عالمی ادارے کی معتربیت کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے۔ 7اکتوبر کے بعد سے اسرائیل لگاتار اقوام متحدہ کے اداروں اورقیادت کو بدنام کرنے کی کوشش کررہاہے۔ دوسری جانب سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان پر دباؤ ڈال کر اس ادارے کو پہلے بھی ناکام بناتا رہاہے۔ اس کے باوجود انٹوگوئیتریس لگاتار منصفانہ اورغیرجانبدارانہ انداز سے کام کررہے ہیں اور اسرائیل کی گیڈر بھبھکیوں کونظرانداز کررہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال اقوام متحدہ کا وہ بیان جس میں مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کوجنگی جرائم میں شامل کیاہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق والکر ٹرک(Volker Turk) نے (آج ہی جمعہ 8مارچ) کو بیان جاری کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی سرزمین کو بستیاں بنا کر وہاں اسرائیل کے لوگوں کو منتقل کررہاہے۔اس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کوختم کرنا ہے۔ جبکہ خود انٹونوگوئتریس مسلسل جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS