رمضان: اصلاح اور تزکیہ نفس کا مہینہ

0

سید خالد حسین (سنگاپور)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے ماننے والوں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی”؛ “چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔” (سورہ البقرہ، آیات 183 اور 184)
“رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اْس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔” (سورہ البقرہ، آیت 185)
پہلی آیت میں”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو”، یعنی “مومنوں”، اور “تقویٰ” کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب تک ہم کو یہ نہیں معلوم ہوگا کہ “مومنوں” اور “تقویٰ” سے کیا مراد ہے ہمیں اپنی زمہ داری کا احساس کیسے ہوگا اور ہم اسے کیسے پورا کر سکیں گے؟ لیکن جب ہمیں یقین ہو جائے کہ ہم خود اور تمام مسلمان اپنے آپ کو مومن سمجھتے ہیں تو یہ ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ہم اپنے عقیدے کے الفاظ کو مطلوبہ اعمال کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔
ایمان کیا ہے: قرآن کریم ایمان کے چار بنیادی عناصر کا واضح طور پر ان الفاظ میں ذکر کرتا ہے: “رسول اْس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں۔” (سورۃ البقرہ، آیت 285)۔ ایمان کے دیگر تین عناصر تقدیر، آخرت اور مرکر دوبارہ اٹھایا جانا ہیں۔ ایمان کے یہ سات نکات اسلام کی بنیاد ہیں۔ ان پر ایمان لانے والا اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور امت مسلمہ کا رکن بن جاتا ہے۔ ایمانیات کے اس عقیدے کو اپنا کر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ ہمارا واحد معبود ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہی ہمارا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ اگر کوئی ان سب باتوں پر یقین رکھتا ہے لیکن پھر بھی اللّٰہ کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ خود تسلیم شدہ باغی بن جاتا ہے۔ ایمانیات کے اس اعتراف کے بعد اللّٰہ کی اطاعت ہمارا فرض بن جاتا ہے۔ اس لیے ہم مکمل مسلمان تب ہی بنیں گے جب ہمارا عمل ہمارے عقیدے کے مطابق ہوگا۔
اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہم سب جو ایمان کے ان سات عناصر کا دعویٰ کرتے ہیں وہی لوگ ہیں جنہیں رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایمان کے ان بنیادی مگر جامع عناصر کا ہمارے پاس موجود ہونے کے بعد ہم میں سے وہ لوگ جو رمضان کے روزے رکھ سکتے ہیں ان کے لیے سال کے کسی دوسرے مہینے کی طرح رمضان میں روزے نہ رکھنے یا اسے نظر انداز کرنے کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔ ایک مومن کے لیے خدا کے حکم کی تعمیل کرنے اور رسول اللہ ؐ کی سنت پر عمل کرنے کے لئے کافی جواز اور ٹھوس وجوہات ہیں۔ روزے کے حوالے سے مذکورہ بالا قرآنی آیات ایک مومن کے ایمان اور ایک خدا پر اس کے یقین، اس کے عقل و ضمیر، اس کے دل اور اس کے جذبات سے براہ راست اپیل کرتی ہیں اور انہیں روحانی غذا فراہم کرتی ہیں۔ چنانچہ یہی آیات مومنین کے لیے نہ صرف اللہ کے فرمان پر عمل آوری کے لیے ضروری ماحول اور حالات پیدا کرتی ہیں بلکہ خوشی کے ساتھ اس کو قبول کرنے اور اس کا اقرار کرنے کے لیے بھی ضروری ہیں۔
احکامات کی تعمیل: اللّٰہ کا روزوں کے بارے میں یہ فرمان جن لوگوں کے لئے ہے انھیں اللّٰہ تعالیٰ نے مومنین کے لفظ سے مخاطب کرکے پہلے سے ہی تیار کر رکھا ہے کہ وہ اس کے تمام احکامات کی تعمیل کریں اور ان پر عمل کریں، چاہے کتنی ہی سختیاں کیوں نہ آئیں۔ لہٰذا جو مومن اللّٰہ پر ایمان لایا ہو، اسے اپنا پالنے والا اور روزی دینے والا، اپنی تقدیر کا مالک، تابعداری، اطاعت اور عبادت کے لائق اور دل و جان کی گہرائیوں سے اس سے محبت کرنے والا ہو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے آپ کو اللّٰہ کے احکام، اس کے قوانین، اس کے فیصلوں اور مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ قرآن مجید ایک مومن سے یہی تقاضا کرتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے:
“ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔” (سورۃ النور، آیت 51)
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول? کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اْس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘ (سورۃ الاحزاب، آیت 36)
“اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسْول تمہیں اس چیز کی طرف بْلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔” (سورۃ الانفال، آیت 24)
حصول تقویٰ :ایسے کئی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دن بھر کے روزے کی ظاہری مشکلات اور غیر معمولی سختیوں سے گزرنے کا ایک اور موقع مل جانا ایک مومن کے لیے انتہائی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ ان عوامل میں تقویٰ کا حاصل ہونا سب سے پہلا اور اہم ترین عنصر ہے۔ روزے کے دوران ہم صبح سے شام تک نہ تو کچھ کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں، خواہ کھانے پینے کی چیزیں کتنی ہی لذیذ کیوں نہ ہو اور بھوک اور پیاس کتنے ہی کیوں نہ لگے ہوں۔ یہ اللّٰہ پر ہمارا ایمان اور قیامت کے دن کے خوف کے سوا کچھ نہیں ہے جو ہمیں رضاکارانہ طور پر ایسی سختیوں سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن یہ سختیاں اور مشکلات بے مقصد نہیں ہیں: یہ ایک مشق اور تربیت ہیں جن کا مقصد اصلاح اور تزکیہ نفس ہے۔ یہ درحقیقت اخلاقیات کا ایک تربیتی کورس ہے جو انسان کو کامل اور فاتح بناتا ہے، اس کی خواہشات کی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اس طرح وہ ان سختیوں سے مغلوب نہیں ہوتا۔ یہ سخت مشق اور نظم و ضبط ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے روبروکرتا ہے اور ہمیں اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں اللہ کی مرضی کے تابع بنانے میں مدد کرتا ہے۔ یہ نظم و ضبط ہمارے اپنے ہی فائدے کے لیے ہم پرلازم کیا گیا ہے۔ روزے کے دوران ہر لمحہ ہم اپنے جذبات اور خواہشات کو دباتے ہیں اور ایسا کرکے اللّٰہ کے قانون کی بالادستی کا اعلان کرتے ہیں۔ فرض کا یہ شعور اور صبر کا جذبہ جو مسلسل روزہ ہمارے اندر پیدا کرتا ہے ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ پھر مقررہ دنوں کے روزے مسلسل جاری رہتے ہیں اور بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت اس مہینے کے دن اور رات، جن میں ہم اوسطاً 15 دنوں کے برابر وقت بھوکے اور پیاسے رہ کر گزارتے ہیں، اور باقی سال کے دن اور رات، جو ہم آرام اور لذت میں گزارتے ہیں، کا کوئی موازنہ نہیں۔ یہ اسلامی روزہ درحقیقت ایک روحانی غذا ہے اور ایک صحت مند زندگی اور ہر قسم کے فوائد اور نعمتوں سے بھر پور ہے۔ یہ ان تمام پریشانیوں، مشکلات اورپابندیوں سے خالی ہے جو انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ قرآن ہم سے کہتا ہے: “… اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اْس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔” (سورہ البقرہ، آیت 185).
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS