نئی دہلی (یو این آئی) : مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اس دعوے پر کہ مہاتما گاندھی نے آر ایس ایس کے نظریہ ساز ونایک دامودر ساورکر کو برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی درخواست دائر کرنے کو کہا تھا، ایک تنازع کھڑا ہو گیا، جس پر مورخین ، ماہرین اور سیاسی جماعتوں نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر موصوف پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ساورکر سے متعلق ایک کتاب کی رسم اجرا کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہیں 20ویں صدی کا پہلا ہندوستانی اسٹرٹیجک ماہر قرار دیا اور کہا کہ مخصوص سیاسی نظریات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے انہیں بدنام کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وی ڈی ساورکر کے بارے میں جھوٹ پھیلایا گیا ہے۔ بار بار یہ بات کہی گئی کہ انہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی درخواست کی، لیکن سچائی یہ ہے کہ انہوں نے خود سے رحم کی درخواست دائر نہیں کی تھی، معافی کی درخواست کرنا کسی بھی قیدی کا حق ہے اور یہاں مہاتما گاندھی نے ان سے کہا کہ وہ رحم کی درخواست دائر کریں۔ انہوں نے رحم کی درخواست دائر کی، کیونکہ مہاتما گاندھی نے انہیں ایسا کرنے کو کہا تھا۔انہوں نے ساورکر کو رہا کیے جانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساورکر بھی دوسروں کی طرح عدم تشدد کے ذریعہ جنگ آزادی میں حصہ لیں گے ۔وزیر دفاع کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے متعدد سیاسی لیڈروں اور تاریخ کے ماہرین نے 1920 میں گاندھی کے ذریعہ ساورکر کو لکھے گئے ایک خط کو شیئر کیا اور وزیر دفاع پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام لگایا۔مہاتما گاندھی کے خطوط کے مطابق، جنہیں ایک کتاب – دی کلیکٹیڈ ورکس آف مہاتما گاندھی، کے نام سے پبلی کیشن ڈویژن نے شائع کیا ہے ، ساورکر نے 18جنوری 1920کو گاندھی کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ ’ساورکر برادران‘پہلے ہی10 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت ہند نے انہیں رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ براہ کرم مجھے آپ بتائیں کہ ایسے حالات میں کیسے آگے بڑھنا ہے ۔
مہاتما گاندھی نے 25جنوری 1920کو خط کے جواب میں کہا کہ مجھے آپ کا خط ملا۔ آپ کو مشورہ دینا مشکل ہے ۔ تاہم، میری تجویز ہے کہ آپ ایک مختصر پٹیشن تیار کرتے ہوئے اس کیس کے حقائق کو واضح طور پر ظاہر کریں کہ آپ کے بھائی نے جو جرم کیا وہ خالص سیاسی تھا۔
انہوں نے آگے لکھا ہے کہ میری یہ تجویز اس لیے ہے، تاکہ عوام کی توجہ اس معاملے پر مرکوز کرنا ممکن ہوسکے ، جبکہ، جیسا کہ میں نے سابقہ خط میں آپ سے کہا ہے کہ میں اس معاملے میں اپنے طریقے سے آگے بڑھ رہا ہوں۔ آپ کا خیر خواہ۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے مہاتما گاندھی کی کہی ہوئی بات کو مروڑ کر پیش کرنے پر راجناتھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ “راج ناتھ سنگھ جی مودی سرکار کی چند ممتاز اور باوقار شخصیات میں شامل ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے تاریخ کو از سر نو لکھنے کی عادت سے پاک نہیں ہیں۔پارٹی لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ ساورکر کو 4جولائی 1911کو سیلولر جیل میں رکھا گیا تھا۔ بس اے چھ ماہ کے اندر، انہوں نے رحم کی درخواست پیش کی۔ 14نومبر 1913کو ان کی دوسری رحم کی درخواست جمع کرائی گئی تھی۔ جبکہ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے 9جنوری 1915کو ہندوستان واپس آئے تھے ۔سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “اس طرح کی تحریفات سے عوام کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کبھی بھی جدوجہد آزادی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ بیشتر اوقات اس نے انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا”۔
اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈر اسد الدین اویسی نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹ میں وزیر دفاع راجناتھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “کل آپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے کہ ساورکر کے نزدیک ہندو ہر وہ شخص ہے جس کے لیے ہندوستان آبائی وطن یا مادر وطن ہے ۔ لیکن درحقیقت ساورکر کی تعبیر کے مطابق ہندو وہی شخص ہے جس کے لیے ہندوستان فادر لینڈ اور مقدس سرزمین ہے “۔انہوں نے مزید کہا کہ “ان کے خیال میں، ہندوستان مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس سرزمین نہیں تھا اور اس لیے وہ ہندوستان کے تئیں مکمل طور پر وفادار نہیں ہو سکتے ۔ بطور وزیر دفاع اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا آپ اس نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں؟بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر دانش علی نے راجناتھ سنگھ کے بیان کو حقائق کی تحریف قرار دیتے ہوئے کہا کہ “انہوں نے ‘حقائق کو مسخ کرنے ‘میں ماسٹرکی ڈگر حاصل کررکھی ہے ۔ ایک جھوٹ کو ایک ہزار مرتبہ بولیں، تو یہ سچ بن جاتا ہے ، ان کا معروف طریقہ کار ہے ۔ انہیں پختہ یقین ہے کہ عصری تاریخ کے طلبہ کبھی بھی ان کے نظریے کو تسلیم نہیں کریں گے “۔اس دوران عصری مورخ عرفان حبیب نے کہا کہ گاندھی جی نے جو خط لکھا ہے وہ ان کی سخاوت قلبی ہے ۔مسٹر عرفان حبیب نے کہا کہ “وہ ساورکر برادران کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘ان دونوں کا کھلے طور پر کہنا تھا کہ وہ برطانوی وابستگی سے آزادی نہیں چاہتے ۔ اس کے برعکس، وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان کی تقدیر انگریزوں کے ساتھ مل کر بہتر بنائی جا سکتی ہے “۔