راجستھان: بی جے پی کے سامنے سخت معرکہ

0

راجستھان میں اگلے سال انتخابات ہونے ہیں مگر وہاں پر ابھی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ دو اہم پارٹیاں کانگریس پارٹی اور بی جے پی اپنے اپنے حلقوں میں سرگرم ہوگئی ہیں۔ حکمراں کانگریس پارٹی کے اندرونی خلفشار کا بھی ذکر ہے اور اسی دوران اہم اپوزیشن پارٹی بھارتی جنتا پارٹی میں اختلاف رائے کی خبریں آرہی ہیں۔ چند روز قبل بی جے پی کے لیڈر امت شاہ نے راجستھان کی او بی سی ذاتو ںکا ایک کنونشن کرکے ہلچل پیدا کردی ہے۔ خیال رہے کہ وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کا تعلق بھی او بی سی سے ہے۔ وہ ذات کے مالی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اس مرتبہ کے الیکشن میں ان کی پارٹی اسی او بی سی ووٹ بینک پر فوکس کرے گی ۔ اس کا فوکس مسلمان بھی ہوں گے ۔ راجستھان میں گوجر ، مینا اور دیگر او بی سی ذاتوں میں ملازمتوں میں ریزرویشن کو لے کر کافی کھینچا تانی رہتی ہے۔ اصل میں بی جے پی او بی سی پر توجہ کرکے کانگریس کو اس پریشانی میں ڈال رہی ہے مگر اس حکمت عملی سے خود پارٹی کی خود کی اہم لیڈر وسندھرا راجے سندھیا پریشان ہوسکتی ہیں۔ وسندھرا راجے سندھیا کا شمار راجستھان کے ان لیڈروں میں ہوتاہے جو کہ بی جے پی کی قیادت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ وہ دس سال تک وزیراعلیٰ رہیں ان کے اوپر ملکہ کی طرح کام کرنے کا الزام ہے مگر ان کی اپنی بڑی طاقت ہے جس کی وجہ سے بی جے پی ان کو نظرانداز کرنے کی پوزیوشن میں نہیں ہے۔ گوالیار کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی وسندھرا راجے راجستھان کی بہو ہیں۔ ان کے بیٹے ممبر پارلیمنٹ لوک سبھی ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت ان کو نظراندازکرکے ریاست میں اپنا ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے مگر دیگر لیڈروں کی آپسی خلفشار اور جوتم پیزار کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کو نظرانداز کردیا جائے۔ وسندھرا راجے سندھیا پارٹی سے الگ اپنی مہم چلا رہی ہیں اور اپنے وفاداروں کو مضبوط بنا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق راجستھان کی کم از کم 47سیٹوں پر وسندھرا راجے سندھیا کی پکڑ ہے اور میواڑ خطے میں ان کا دبدبہ ہے۔ ایک طبقہ ان کو وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کرنے کا مطالبہ کررہا ہے مگر پارٹی کا اندرونی خلفشار اس قدر شدید ہے کہ اگر کسی بھی لیڈر کو مستقبل کا وزیراعلیٰ بنا کر پیش کردیا جاتاہے تو دوسرے لیڈر ناراض ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بی جے پی اعلیٰ کمان اس معاملہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ریاست کی سیاست میں گہری نظر رکھنے والے ایک سابق ایم ایل اے کا کہنا ہے کہ اگر ایسے حالات میں کسی بھی امیدوار کانام پیش کردیا جاتاہے یا کسی بھی او بی سی لیڈر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو یہ بی جے پی کے لیے زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ نرپت سنگھ راجوی نے جو کہ کئی حلقوں میں وسندھرا راجے کے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ستیش پونیا کو اگر وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کردیا گیا تو یہ بی جے پی کے لیے تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔
مرکزی وزیر برائے آبی وسائل گجیندر سنگھ شیخاوت اگر چہ ریاستی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں مگر ان کے خلاف سرگرم خیمہ کو وہ قبول نہیں ہوں گے۔ وسندھرا راجے سندھیا نے پارٹی کے اندر ایسی مضبوط پکڑ بنالی ہے کہ پارٹی کسی دوسرے لیڈر کو وزیراعلیٰ کے طور پر پیش نہیں کرسکتی ہے۔ ایک طبقہ کی رائے ہے کہ بی جے پی کانگریس کو چوٹ کرنے اور وسندھرا راجے کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے اوبی سی کارڈ کھیل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ او بی سی کنونشن اشوک گہلوت کی اثرورسوخ والے علاقے جودھ پور میں ہوا تھا۔ اشوک گہلوت جودھ پور ضلع سے منتخب ہوتے آئے ہیں۔ پچھلے دنوں جودھ پور کے نواح میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے ان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی تھی مگرانہوںنے فرقہ وارانہ نوعیت کی وارداتوں پر سخت کاررو ائی کی تھی۔ بی جے پی کے لیڈر گجیندر سنگھ شیخاوت کا تعلق بھی جودھ پور سے ہے۔ جودھ پور ڈویژن میں چار پارلیمانی حلقے آتے ہیں۔ بی جے پی نے 2024کا جو روڈ میپ تیار کیا ہے وہ بوتھ کی سطح پر ہے اور بی جے پی بوتھ کی سطح پر ہی او بی سی ووٹو ںکو ٹارگیٹ کررہی ہے۔ راجستھان میں او بی سی ذاتیں علیحدہ ریزرویشن کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ 2000کے دوران راجستھان میں گوجروں کا مظاہرہ ہواتھا اور ریاست میں بڑی دھماکہ خیز صورت حال پیدا ہوئی تھی۔ ان ہی مظاہروں کی بنیاد پر 5فیصد ریزرویشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ راجستھان میں آج بھی گوجر احتجاج کررہے ہیں۔ احتجاج کرنے والی ذاتیں سینی ، کشواہا ، مالی، موریا اور شاکیا ں ہیں۔ یہ ذاتیں 12فیصد ریزرویشن کی مطالبہ کررہی ہیں۔ ریاستی کانگریسی سرکار اس مطالبہ سے کیسے نمٹتی ہے اس بات پر انحصاراس کا ہوگا کہ کس طرح اشوک گہلوت اپنا اقتدار برقرار رکھ پاتے ہیں۔
وسندھرا راجے سندھیا اور بی جے پی کی مرکزی قیادت میں اختلافات بہت شدید ہیں اور بہت پرانے ہیں۔ 2018میں بی جے پی کی مرکزی قیادت نے بطور مستقبل کے وزیراعلیٰ گجیندر سنگھ شیخاوت کا نام پیش کیا تھا مگر وسندھرا راجے نے شیخاوت کی دال نہیں گلنے دی۔ حالانکہ اس وقت صاف تھا کہ ریاست میں وسندھرا راجے سندھیا کی گرفت کمزور ہوچکی ہے اور 2018کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہی ضمنی انتخابات میں الور اور اجمیر کی پارلیمانی سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار شکست کھاگئے تھے۔ وسندھرا راجے کے سخت اور شاہانہ طور طریقوں کی وجہ سے مرکز اور راجستھان قیادت میں کشیدگی بڑھتی چلی گئی تو وسندھرا راجے نے کچھ ممبران کو اپنے ساتھ اس طرح ملا لیا کہ مرکزی قیادت کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر شیخاوت کو آگے بڑھانے کی کوشش ہوئی تو پارٹی بکھر جائے گی اس وقت ریاستی بی جے پی میں اندرونی رسہ کشی کی وجہ سے پارٹی عوام کے سامنے متحد ہو کر نہیں جاسکتی۔ امیدواروں کے انتخابات میں وسندھرا راجے نے من مانی کی بی جے پی نے پارٹی قیادت میں تبدیل کر کے مد ن لال سچن کو ریاست کی کمان سونپی مگر ان کی کسی نے نہیں سنی۔ دراصل وسندھرا راجے کے حامی اشوک ہرنامی کو ہٹا کر مدن لال کو صدر بنا یا گیاتھا اس سے وسندھرا کو بہت ناراضگی ہوگئیں اور بی جے پی کا نقصان ہونے سے بچا جاسکا۔ اس دوران کانگریس کے جوان سال لیڈر سچن پائلٹ نے شہر شہر ، گائوں گائوں گھوم کر پارٹی کو مضبوط بنا یا اور اس کا نتیجہ سامنے بھی آیا۔ بی جے پی ہاری اور کانگریس نے اشوک گہلوت کی قیادت میں سرکار بنائی۔ مگر آج کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو بی جے پی کی وہی حالات ہے۔ جو 2018میں تھی۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS