ہندوستان اور چین کے سرحدی حالات

0

محمد عباس دھالیوال
ہندوستان اور چین کے بیچ قریب 3800 کلو میٹر کی طویل سرحد پڑتی ہے۔گزشتہ قریب دوسال سے چین و ہندوستان کے درمیان سرحدی تنازعات کو لے کر خبریں سامنے آتی رہی ہیں کئی مواقع ایسے بھی آئے ہیں جب دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے ہو چکی ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں افواج کے جوانوں میں خون ریز جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔
ان جھڑپوں کو لے کر ہندوستان کی بر سر اقتدار پارٹی کئی بار حزب اختلاف کے لیڈروں کے نشانے پر آ چکی ہے بالخصوص حزب اختلاف کے کانگریسی رہنما راہل گاندھی اکثر اوقات حکومت پر چین کے تئیں نرم پڑنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف حکومت اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے ایسے الزام کی یکسر تردید کی جاتی رہی ہے۔
اب تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کے مغربی حصے کے سرحدی علاقے گوکرا میں چین اور بھارت کی افواج نے حالات معمول پر لانے شروع کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک نے قریب دو برس بعد اعلان کیا ہے کہ ان کے درمیان حالتِ جنگ ختم ہو گئی ہے۔دریں اثناء دو برس پہلے برف پوش اور یخ پہاڑی علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تصادم میں متعدد ہلاکتوں کے بعد سے ہمسایوں کے درمیان تعلقات کشیدگی اختیار کر گئے تھے۔ اب دونوں ملکوں کی طرف سے فوجی کشیدگی اور تناؤ کی صورتِ حال کے خاتمے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ آنیوالے دنوں میں ازبکستان میں ایک کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت متوقع ہے۔
’رائٹرز‘کی ایک رپورٹ کے مطابق ا گرچہ دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی اب بھی ہمالیہ کے سرحدی علاقے میں آمنے سامنے کھڑے ہیں لیکن اب ان کے درمیان تناؤ کی صورتِ حال نہیں ہے۔ادھر چین کی وزارتِ دفاع نے گزشتہ جمعے کو کہا کہ دونوں اطراف کے فوجیوں نے مربوط اور منظم طریقے سے حالتِ جنگ سے دست برداری شروع کر دی ہے۔ جس سے سرحدی علاقے میں امن و سکون کے لیے سازگار فضا بننے لگی ہے۔جون 2020 میں لداخ کے علاقے گالوان میں ہندوستان اور چین کے فوجیوں کے درمیان خون ریز چھڑپ ہوئی تھی، جس کے بعد سے دونوں ممالک کے سینئر فوجی افسران کے درمیان ملاقاتوں کے 16 دور ہو چکے ہیں۔
دریں اثناء چین نے فوجیوں کی واپسی کے فروری 2021 کے معاہدے کے تحت لداخ میں واقع پینگونگ تسو جھیل کے کنارے قائم اپنی درجنوں چوکیاں ختم کر دی تھیں اور فوجی سازو سامان واپس ہٹا لیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے انتہائی قریب مورچہ بند تھیں ۔
ادھر تازہ ترین صورتحال پہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کو یہ خدشہ تھا کہ اگر ملاقات کی کوئی صورت بنتی ہے تو کہیں نریندر مودی ملاقات سے انکار نہ کر دیں۔ اس لیے چین مذکورہ علاقے سے ہٹنے پر راضی ہوا ہے۔اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان نومبر 2019 میں برازیل میں منعقد ہونے والے برکس اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔دفاعی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) پی کے سہگل نے ایک نیوز رپورٹ میں کہا کہ جہاں سے افواج کی واپسی شروع ہوئی ہے وہ بھی بھارت کا ہی علاقہ تھا۔جنرل سہگل کا یہ بھی کہناہے کہ چین کی فوجیں اپریل 2020 میں دیپسانگ، گوگرا ہائٹس، گلوان، پینگانگ سو اور دیمچوک علاقے میں آئی تھیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی افواج گلوان وادی سے پیچھے ہٹ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے دیپسانگ پلین اور دیمچوک بھارت اور چین دونوں کے لیے اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے بہت اہم ہیں۔ وہاں چینی فوجیں موجود ہیں جو بھارت کی فضائی نقل و حمل پر نظر رکھ رہی ہیں۔ اگر چین وہاں رہتا ہے تو وہ بھارت کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن وہ وہاں سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں بات بھی نہیں کرتا۔
جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق چین بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کر رہا ہے۔ رواں سال کے مارچ میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے دورہ بھارت کے موقع پر چین نے ہاٹ اسپرنگ علاقے کے پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے افواج کی واپسی کی تجویز رکھی تھی جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔جنرل پی کے سہگل کے مطابق بھارت چاہتا ہے کہ جہاں جہاں بھی دونوں فوجیں بالکل آمنے سامنے ہیں وہاں سے ہٹ جائیں۔ اس کے بعد دیپسانگ اور دیمچوک سے بھی ہٹ جائیں اور وہاں چلی جائیں جہاں اپریل 2020 سے قبل تھیں۔ ان کے خیال میں جب تک یہ تینوں باتیں نہیں ہوں گی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں گے۔
اس سے پہلے مارچ میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ وانگ یی اور ایس جے شنکر کی ملاقات کے بعد رواں سال کے جولائی میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہونے والے گروپ 20 کے وزارئے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس بیچ ہندوستان کی طرف سے بارہا یہی کہا جاتا رہا ہے کہ جب تک چین اپنی افواج کو سابقہ پوزیشن پر نہیں لے جاتا، باہمی تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS