کانگریس کو نئے قومی صدر کی صورت میں ایک قیادت مل گئی ہے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ کانگریس گاندھی خاندان کے سحر سے آزاد نہیں ہوپائی ہے۔متنازع معاملات کی یکسوئی میں تاخیر کے کند ہتھیار کی آزمائش کی وہی روایت جاری ہے جو اب سے پہلے تھی۔ فوری فیصلہ لینے اوراس پر عمل درآمد کے بجائے معاملات کو لاینحل بناکرپارٹی لیڈروں کی حوصلہ شکنی کا سلسلہ تو شاید ختم ہی نہ ہو۔اور یہ سب ایک ایسے وقت میں بھی جاری ہے جب بھارتیہ جنتاپارٹی کی منہ زور آندھی میں پارٹی نے بیشتر ریاستوں میں اپنی حکومت گنوادی ہے تو زیادہ تر سینئر لیڈران کے خیمہ کی طنابیں بھی اکھڑ چکی ہیں۔
ان حالات میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ پارٹی میں نیا خون شامل کیا جاتا، نئی نسل کے لیڈروں کو پہلی صف میں لاکر انہیں ایک متبادل کے طور پر پیش کیاجاتا لیکن اس طرف کوئی توجہ دینے کے بجائے پارٹی میں تنازعات کوبرقرار رکھنے کی روایت پر عمل کیاجارہا ہے۔ تازہ معاملہ راجستھان کا ہے جہاں وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سابق نائب وزیر اعلیٰ سچن پائلٹ کے مابین رسہ کشی اور لفظی جنگ اپنی انتہاپر پہنچی ہوئی ہے۔ ادھر 80 سالہ نئے کانگریس صدر کسی انہونی کا انتظار کررہے ہیں۔
راجستھان کانگریس کا تنازع نیا نہیںہے گزشتہ دو برسوں سے سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت رفیق کے بجائے حریف کے طور پر آمنے سامنے ہیں۔کبھی سچن پائلٹ اپنے حامیوں کے ساتھ گہلوت کے خلاف محاذآرائی شروع کردیتے ہیںتو کبھی اشوک گہلوت، سچن پائلٹ کو نظم و ضبط کی تلقین کرتے ہیں جس سے معاملہ اورا لجھ جاتا ہے۔ یہی صورتحال بدھ کے روز پیش آئی جب وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کی تعریف کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے سچن پائلٹ نے کہا کہ وزیراعظم نے جس طرح اشوک گہلوت کی تعریف کی ہے وہ ایک دلچسپ پیش رفت ہے کیونکہ اسی طرح وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کانگریس کے سابق لیڈر غلام نبی آزاد کی تعریف کی تھی اور اس کے بعد کیا ہوا ہم سب جانتے ہیں۔
پائلٹ کا یہ بیان گہلوت پرایک طرح سے الزام تراشی بھی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس اور سونیا گاندھی کے انتہائی قریبی اور بہت زیادہ وفادار سمجھے جانے والے غلام نبی آزاد کانگریس پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن پارٹی چھوڑنے سے پہلے فروری 2021 میں راجیہ سبھا سے غلام نبی آزاد کی الوداعی تقریب کے موقع پر ایوان میں وزیراعظم نریندر مودی بہت جذباتی ہوگئے تھے اور آزاد کی بے پناہ تعریف کی تھی۔سچن پائلٹ کے اس بیان کا اثر وہی ہوا جس کی توقع تھی، ایک طرف جہاں راجستھان کانگریس میں خوف و ہراس کی لہر دوڑگئی اور زیادہ تر سینئر لیڈران یہ سمجھنے لگے کہ اشوک گہلوت اب مہمان ہیں تو دوسری جانب اشوک گہلوت بھی برہم ہوگئے اور انہوں نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سچن پائلٹ کانام لیے بغیر کہا کہ پارٹی لیڈروں کو نظم و ضبط برقرار رکھنا چاہیے اور بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے اور پارٹی کی توجہ راجستھان میں حکومت کو برقرار رکھنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
راجستھان کی 200رکنی اسمبلی میں کانگریس کے 108 ارکان ہیں اور سچن پائلٹ کا دعویٰ ہے کہ انہیں ان میں سے تقریباً 100 ارکان کی حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ وزیراعلیٰ بننے کے حقدار ہیں لیکن کانگریس قیادت نے ان پر اشوک گہلوت کو مسلط کردیا ہے۔ راجستھان میں حکومت بنانے کے ایک سال بعد ہی یہ تنازع سر ابھارنے لگاتھا اور سچن پائلٹ اپنے حامیوں کے ساتھ ایک ریسورٹ میں بند ہوکر اشوک گہلوت کی کرسی کیلئے خطرہ بن گئے تھے۔ گزرتے دن کے ساتھ یہ تنازع بڑھتا ہی گیا۔پارٹی صدر کے انتخاب کیلئے مہم چلانے پہنچے ملکارجن کھڑگے کی میٹنگ میں اشوک گہلوت اوران کے حامی شامل نہیں ہوئے۔
بظاہر دو لیڈروں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کا یہ تنازع دراصل ملک گیر سطح پرکانگریس کی حقیقی صورتحال کا عکاس ہے۔ ہر وہ ریاست جہاں کانگریس اپنا تھوڑابہت وجود رکھتی ہے وہاں پارٹی میں یہی حالات ہیں۔ کانگریس اپنے تابناک ماضی کو توپہلے ہی دفناچکی ہے، اب ذلت و خجالت کی نئی تاریخ لکھ رہی ہے۔خدشہ یہ ہے کہ کہیں اسی برے حال سے گزرتے ہوئے مستقبل کی دہلیز پر دم نہ توڑ دے۔ کیوں کہ ملکارجن کھڑگے کے صدر بننے کے بعد بھی ان حالات میں کسی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آرہاہے اور اس کی کھلی وجہ یہ ہے کہ کانگریس نہ اپنی سوکھتی رگوں میں نیا لہو شامل کرنے کو تیار ہے اور نہ وہ ’خاندان کے سحر‘ سے ہی نکلنے کی آرزو مند ہے۔
[email protected]
راجستھان کانگریس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS