عبیداللّٰہ ناصر
ہتک عزت کے ایک معاملہ میں سورت کی ایک عدالت نے راہل گاندھی کو دو سال قید اور 25ہزار روپے جرمانہ کی سزا دی ہے۔ اس سزا کے بعد لوک سبھا کے اسپیکر نے فوری کارروائی کرتے ہوئے راہل گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت فوری طور سے ختم کردی۔ ادھر اطلاعات کے مطابق اسی برق رفتاری سے الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی کے انتخابی حلقہ وائناڈ میں ضمنی الیکشن کرانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس معاملہ میں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سے لے کر لوک سبھا کا سکریٹریٹ اور الیکشن کمیشن جو برق رفتاری دکھا رہے ہیں، ویسی ہی برق رفتاری وہ دیگر مقدمات میں دکھاتے تو اس ملک کے غریب عوام کے آنسو پنچھ جاتے۔ اب ذرا اس معاملہ کی ترتیب وار کرونولوجی بھی سمجھ لی جائے۔2019 میں کرناٹک کے کولار حلقہ میں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا تھا کہ نیرو مودی ہوں یا للت مودی یا بینکوں کے اربوں روپے لے کر بھاگ جانے والے دیگر مودی، ان سب کے نام کے آگے مودی ہی کیوں لگا ہوا ہے۔ دراصل راہل گاندھی ان کا تعلق وزیراعظم مودی سے جوڑنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ انتخابی ریلیوں میں خود وزیراعظم نریندر مودی، امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے تمام لیڈران کیا کیا بیانات دیتے رہتے ہیں اور ماضی میں انہوں نے کیا کیا نہیں کہا، یہ سب عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ سیاسی بیان بازیوں کو جو معیار ہندوستانی سیاست میں مودی جی کے عروج سے شروع ہوا ہے، اس کے سامنے تو سڑک چھاپ نیتاؤں کے بیان شرمندہ ہوجاتے ہیں لیکن راہل کے اس بیان کو گجرات کے سورت حلقہ کے ایک ممبر اسمبلی جن کے نام کے ساتھ بھی مودی جڑا ہوا ہے، اسے پوری مودی برادری کے لیے توہین آمیز مانتے ہوئے سورت کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی خود انہوں نے ہی گجرات ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کرکے اس مقدمہ پر اگلی کارروائیوں کو موقوف کرا دیا اور فروری2023تک یہ مقدمہ زیرالتوا رہا۔ اڈانی گیٹ کا معاملہ سامنے آتے ہی جب راہل گاندھی نے اس معاملہ کو پورے زور شور سے لوک سبھا میں اٹھایا اور اڈانی و مودی کے رشتوں پر سوال کھڑے کرتے ہوئے ان رشتوں کی مودی جی سے وضاحت طلب کی تو پوری مودی سرکار بیک فٹ پر چلی گئی۔ اڈ انی گیٹ کو لے کر مودی سرکار کی مصیبتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، سپریم کورٹ نے بھی اس کے لیے اپنی زیر نگرانی ایک کمیٹی تشکیل کر دی ہے۔ ادھر پورا حزب اختلاف اس معاملہ میں مودی سے سوال پوچھ رہا ہے۔10سال میں شاید پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ بی جے پی اور مودی سرکار کے ترکش کے سارے تیر اڈانی گیٹ کے معاملہ میں کند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، ایسے میں لندن میں راہل گاندھی کے بیان کو لے کر بی جے پی نے طومار کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی زیادہ کامیاب نہیں رہا کیونکہ صداقت سامنے آنے لگی تھی، بس یہاں سورت کے وہ ممبراسمبلی کھیل میں شامل ہوگئے، انہوں نے ہائی کورٹ میں اس مقدمہ کو موقوف رکھنے کی جو عرضی دی تھی، وہ واپس لے لی اور عدالت سے مقدمہ شروع کرنے کی اجازت لے لی۔ صورت کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے ہائی کورٹ کی ہری جھنڈی کے بعد مقدمہ کی سماعت شروع کر دی اور ایک مہینہ کے اندر ہی یہ فیصلہ دے دیا۔ اس مقدمہ میں زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا کا جواز ہے۔عام طور سے عدالتیں کسی بھی معاملہ میں زیادہ سے زیادہ سزا کی حد تک نہیں جاتی ہیں لیکن یہ معاملہ راہل گاندھی کا تھا اور اگر زیادہ سے زیادہ سزا سے ایک مہینہ کم کی بھی سزا دیتے تو راہل کی لوک سبھا کی رکنیت نہ جاتی، اس لیے فاضل مجسٹریٹ صاحب نے زیادہ سے زیادہ سزا سنا کے وزیراعظم مودی کے سب سے بڑ ے، سب سے طاقتور، سب سے مؤثر سیاسی حریف کو لوک سبھا سے باہر ہی نہیں نکلوا دیا، بلکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ان کے چناؤ لڑنے کی راہ بھی مسدود کر دی۔مگر اس سزا کا مثبت پہلو یہ ہے کہ پورا حزب اختلاف اس کے خلاف متحد ہو گیا، سب نے راہل گاندھی کی حمایت شروع کر دی یہاں تک کہ اروند کجریوال اور ممتا بنرجی تک نے راہل کی حمایت میں بیان جاری کرتے ہوئے مودی حکومت کی اس سازش کی مذمت کی ہے۔راہل گاندھی نے کہا ہے کہ وہ ہندوستان کی آواز کے لیے یہ لڑائی جاری رکھیںگے۔
ایک طرف بی جے پی سرکار اور عدالت اس معاملہ میں برق رفتاری سے کام کر رہی ہے، دوسری جانب اتنے اہم معاملہ میں بھی کانگریس کی لیٹ لطیفی اور کنفیوژن پہلے جیسا ہی ہے۔ جب جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے سزا پر عمل درآمد ایک مہینہ کے لیے روک کر راہل کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا موقع دیا تھا تو یہ اپیل فوری طور سے کیوں نہیں دائر کرکے اسٹے آرڈر حاصل کیا گیا تھا؟ ادھر مودی جی نے برق رفتاری سے کام کیا، پانچ منٹ کے لیے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور اس کے بعد انہوں نے فوری طور سے راہل کی رکنیت خارج کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ کانگریس کے پاس اچھے تجربہ کار وکیلوں کی پوری فوج ہے مگر سب پورس کے ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔ کانگریس کا شعبہ قانون کیا کررہا ہے، وہ بھی بس سفید ہاتھی بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم مودی سے لے کرمعمولی کارکن بھی روز کا نگریس کے لیڈروں خاص کر نہرو گاندھی کے خلاف بیہودہ بیان بازی کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان پر مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ نہیں کرتا، یہ مردنی ہی کانگریس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ راہل کو چھوڑ کسی میں لڑنے کا مادہ ہی نہیں دکھائی دیتا اور اکیلا راہل کس کس محاذ پر لڑے ؟
حقیقت یہ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اور ملک کے سماجی تانے بانے، معاشی حالات، آئینی جمہوریت کو در پیش خطروں اور غیرمحفوظ سرحدوں خاص کر چین کی حرکتوں اور اس پر مودی حکومت کی خاموشی کو لے کر عوام کی سوچ میں تبدیلی کی رپورٹوں سے حکمرانوں کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں۔ شامت اعمال ہنڈن برگ کی رپورٹ نے مودی سرکار کو چاروں خانہ چت کردیا۔ اڈانی اور مودی کے رشتوں کو لے کر لوک سبھا میں راہل گاندھی کے سوالات نے حکومت کی چولیں ہلا دیں، ان کی تقریر کے زیادہ تر حصہ کو کارروائی سے نکال دیا گیا لیکن یہ ایک بچکانہ حرکت تھی کیونکہ راہل نے جو کچھ کہا، وہ سب عوام تک پہنچ گیا، اب اسے عوام کے ذہنوں سے نکالنے کا ایک ہی راستہ بچا تھا کہ کچھ ایسا کردیا جائے کہ عوام اور اپوزیشن کی توجہ اڈانی گیٹ اور مودی اڈانی رشتوں سے ہٹ کر کسی اور طرف منتقل ہو جائے، راہل کے خلاف یہ کارروائی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بیشک راہل گاندھی کودی جانے والی یہ سزا ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن سیاسی دور اندیشی اور حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن کی دوسری پارٹیاں اڈ انی گیٹ سے توجہ نہ ہٹائیں اور مودی اڈانی رشتوں کو زور شور سے اجاگر کرتے ہوے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی سے اس کی جانچ کی مانگ پر اٹل رہیں۔مودی سرکار نے اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے، یہ کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے ایک مضبوط محاذ بنا دے، یہی مودی سرکار کے خاتمہ کی ابتدا ہو سکتی ہے۔
یہاں یہ یاد دلانا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ راہل گاندھی نے اپنے لیے، اعظم خان اور ان کے بیٹے عبدا للہ اور ان جیسے نہ جانے کتنے عوامی نمائندوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے لیے یہ مشکلات خود کھڑی کی ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قدرتی انصاف کے خلاف ہے کہ ٹرائل کورٹ سے2سال کی سزا ملتے ہی کسی عوامی نمائندہ کی رکنیت ختم ہو جائے گی اور وہ اگلے6برس تک چناؤ بھی نہیں لڑسکے گا جبکہ قاتل، دہشت گرد اور دوسرے مجرموں کی سزاپر سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے بعد ہی عمل ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی اس خامی کو دور کرنے کے لیے منموہن سنگھ کی سرکار نے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جسے راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں پھاڑ کے پھینک دیا تھا۔ یہ ایک غیر قانونی، غیر آئینی،بچکانہ اور احمقانہ حرکت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ راہل کی اس حرکت سے منموہن سنگھ اتنے ناراض اور دکھی تھے کہ غیر ملکی دورے سے واپس آتے ہی انہوں نے سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے مستعفی ہونے کی پیش کش کر دی تھی مگر سونیا گاندھی نے انہیں سمجھا بجھا کر اس سے باز رکھا تھا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے لالو یادو، مرحوم قاضی رشید مسعود انتخابی سیاست سے باہر ہو گئے تھے، جس کا اصل نقصان کانگریس کو ہی اٹھانا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قدرتی انصاف اور تین مرحلوں کی عدلیہ ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے نظریہ کا ہی منافی ہے، اس پر نظر ثانی ضروری ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]