مدارس میں حفظ قرآن کی تعلیم پر چند مشورے

0

عمیر انس

اس رمضان میں ایک مسجد میں تراویح کے لیے جانا ہوا، تیسری تراویح تھی اور نواں پارہ پڑھا جارہا تھا۔ نوجوان حافظ قرآن کو اپنی برق رفتاری سے پیچھے چھوڑتے جا رہے تھے۔نمازی حضرات پوری توجہ سے سماعت میں مصروف تھے۔یعلمون تعلمون کے علاوہ چند الفاظ ہی ٹھیک سے ادا ہورہے تھے۔ ہند و پاک میں سبھی کو معلوم ہے کہ حفظ قرآن کی تعلیم میں کیا ہوتا ہے۔بقول ایک استاذ کے کچھ دہائی پہلے تو والدین یہ کہہ کر بچے کو مدرسے چھوڑ جاتے تھے کہ ہڈی ہماری، گوشت آپ کا، لیکن بچہ حافظ بننا چاہیے، میرے مدرسے میں رہنے تک بھی تقریباً یہی ماحول تھا، ممکن ہے اب کچھ نرمی آئی ہو لیکن حافظ قرآن کی تعلیم مدارس کے تعلیمی نظام میں سب سے ناقص اور سب سے زیادہ بے توجہی کا شکار ہے۔ جہاں مدارس کے ذمہ داران اور اساتذہ کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح سے بچے کو مکمل قرآن حفظ کرا کر فارغ کر دیا جائے۔بر صغیر میں حافظ اور عالم دو الگ الگ کردار ہیں، بیشتر حافظ عالم نہیں ہوتے اور بیشتر عالم حافظ نہیں ہوتے۔ حفظ قرآن تقریباً پانچ سالوں میں مکمل ہوہی جاتا ہے اور اکثر طلبا کم عمری میں داخل ہوتے ہیں اور پندرہ سولہ سال سے پہلے ہی حافظ قرآن ہوکر فارغ ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد وہ مساجد میں امامت شروع کردیتے ہیں، چند ایک حفاظ مزید تعلیم کے لیے عالمیت کے درجات میں داخلہ لے لیتے ہیں اور آج کل ایک خوش آئند تبدیلی آئی ہے کہ بعض حفاظ انٹر میڈیٹ کرکے میڈیکل اور انجینئرنگ کی طرف بھی متوجہ ہوئے ہیں اور الحمدللہ قرآن پاک کی حفاظت کے ساتھ دنیاوی خیر بھی حاصل کر رہے ہیں۔
مدارس کے تعلیمی نظام سے گزرنے کے بعد میری سمجھ میں چند باتیں کبھی نہیں آئیں، مثلاً یہ بات کہ حفظ قرآن میں عربی زبان کے ساتھ عربی زبان کی تعلیم دینے کا سلسلہ کیوں نہیں رکھا گیا ہے، حالانکہ نئی زبان سیکھنے کا معاملہ یہ ہے کہ آج کل درجہ اول دوم کے بچے بھی انگریزی ہندی ایک ساتھ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ایک حافظ قرآن حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کو ساری زندگی سمجھے بغیر پڑھتا اور پڑھاتا رہے گا، یہ خیال مدارس کے ذمہ دران کو خوفزدہ نہیں کرتا کیا؟ قرآن پاک کے الفاظ اور معانی کو سمجھے بغیر اسے ازبر کرنا اور اسے ہر سال مکمل سنانا اور ہرنماز میں سنانا، کیا قرآن پاک کی خدمت ہے یا اس کی شان میں کوتاہی! یقینا قرآن پاک کو بغیر سمجھے پڑھنے کی اجازت بھی ہے اور اس کا ثواب بھی ہے لیکن دنیا کے کسی ملک اور فقہ میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور سنانے والے سے افضل قرار پائے۔حفظ قرآن کی اصل ہی یہی ہے کہ حافظ قرآن صرف ایک ٹیپ ریکارڈر نہیں ہے بلکہ اس کے سینے میں اس کے معانی اور مفاہیم کا کم از کم بنیادی فہم تو ہے جس کو وہ پڑھتے ہوئے محسوس بھی کرے اور اس سے محظوظ بھی ہو اور اس کے احساس کا اظہار اس کے پڑھنے کے اتار چڑھاؤ پر بھی ظاہر ہوتا ہو۔
قرآن فہمی کے بغیر اور عربی زبان سیکھے بغیر حفظ کی روایت کب اور کیسے قائم ہوگئی، اس کا مجھے علم نہیں ہے لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اس کی اجازت صرف ان حالات میں ہی دی گئی تھی جہاں غیر عرب علاقوں میں خصوصاً ایشیا میں قبول اسلام بڑے پیمانے پر ہوئے اور فوری علماء اور مربیوں کو بڑی تعداد میں بھیجنا ممکن نہیں تھا تو حفظ قرآن مکمل کراکر انہیں بنیادی فرائض قائم کرنے کی ذمہ داری دی جانے لگی۔ اس طریقے سے حفظ قرآن کی اجازت آج بھی ہے۔لیکن ایسے علاقے جہاں اب پچاسوں سیکڑوں سال سے اسلام قائم ہے اور وہاں پچاس پچیس سال پرانے مدارس قائم ہیں اور آج بھی وہ حفظ قرآن کی ہنگامی صورتحال والی ضرورت کو عام حالات کی ضرورت سمجھ کر نافذ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس بات کو فقہی نقطہ نظر سے جائز اور ناجائز قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن افضل اور غیر افضل تو قرار دینا ممکن ہے۔عملی طور پر ہر حافظ قرآن کو عربی زبان سکھانا ممکن ہے اور ضروری بھی اور زیادہ ثواب کا ذریعہ بھی۔لہٰذا میرا مشورہ تو یہی ہے کہ اب مدارس میں حفظ قرآن کے کورس میں عربی زبان کی تعلیم کو لازمی بنایا جائے اور عوام کو ایسے حفاظ کو مقرر کرنے کی ترغیب دی جائے جنہیں قرآن فہمی کی بنیادی صلاحیت ہو۔
دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ موجودہ حفظ قرآن کے طریقے میں یہ تاثر عام کر دیا گیا ہے کہ صرف مکمل قرآن حفظ کرنا ہی ضروری ہے۔حالانکہ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو محض پانچ پارے، دس پارے، پندرہ پارے یا محض ایک پارہ بھی حفظ کرنے کے لیے وقت فارغ کرسکتے ہیں لیکن مدارس میں اس طرح کے حفظ کی خواہش رکھنے والوں کے لیے سرے سے کوئی نظم نہیں پایا جاتا۔ہزاروں کالج کے طلبا پانچ دس پارے حفظ کرنے کے لیے ایک سال چھ مہینے وقف کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ضروری اخراجات کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔معاشرے میں محض پانچ دس مکمل قرآن کے حافظوں سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دو چار ہزار لوگ ایسے ہوں جنہوں نے بعض اجزاء کے حفظ کی تعلیم حاصل کی ہو۔ قرآن کا حفظ اتنا عام کر دیا جائے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قرآن یاد ہو۔عرب ممالک میں دیکھنے میں آیا کہ عام لوگوں کو جو جدید تعلیم یافتہ بھی ہیں، انہیں کافی قرآن یاد رہتا ہے۔قرآن مجید کی حفاظت اور اشاعت کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہوگا کہ قرآن عوامی حافظے میں آجائے۔
تراویح کی نماز اور رمضان سے بہتر استفادے کے سلسلے میں مسلم جماعتوں اور رہنماؤں کو رمضان سے پہلے ہی کافی بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔تراویح کو ایک ایونٹ اور ایک جشن یا ایک رسم بنا دینے کی وجہ سے تراویح تو ہو رہی ہے لیکن قرآن کی روح غائب ہورہی ہے۔ لیکن یہ بیداری صرف اسی وقت عملاً دیکھی جا سکتی ہے جب حفاظ قرآن بھی اس کے لیے تیار کیے گئے ہوں۔ جس معاشرے میں سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صاحب علم و عمل حفاظ ہوں گے، وہاں رمضان زیادہ سے زیادہ مفید اور موثر نظر آئے گا۔ خصوصی طور پر تراویح پڑھانے والے حفاظ کے لیے بہتر نصاب تعلیم بنانا ہوگا جس میں انہیں محض ختم قرآن ہی نہیں بلکہ پیغام قرآن کو بھی پہنچانے میں مددگار ہونا چاہیے اور اس جانب پہلا قدم یہ ہو کہ تراویح کے تمام سپر فاسٹ طریقوں کی سخت حوصلہ شکنی کی جائے۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS