راہل گاندھی بہانہ اپوزیشن کی صفائی نشانہ

0

بھارتیہ جنتاپارٹی کی فرد سیاست کا کوئی باب ایسا نہیںہے جو بے داغ ہو۔ عدل و انصاف، اصول ضابطوں کی پامالی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، مذہبی آزادی پر پابندی، اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک، اظہار رائے پر پہرے اور آئینی جمہوریت کی تاراجی عام ہندوستانیوں کا مقدر بن چکا ہے۔2014کے بعد سے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سیاسی جماعت اپنے حریفوں اور سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے، اس کی نظیر کم از کم ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔زمانہ ایمرجنسی میں بھی خاتون آہن وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ وہ سلوک نہیںکیاتھا جوآج وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میںہورہاہے۔
وائناڈ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کو ہتک عزت کامجرم قرار دے کر راتوں رات انہیں پارلیمنٹ بدر کردیا گیا اور اب انہیں بے گھر کیے جانے کی کارروائی بھی شروع کردی گئی ہے۔ اطلاع ہے کہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے راہل گاندھی کوایم پی کی حیثیت سے الاٹ کیا جانے والا بنگلہ 23 اپریل تک خالی کرنے کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ضابطہ کے مطابق اگر راہل گاندھی چاہیں تو اس مدت میں توسیع کی درخواست بھی کرسکتے ہیںجس پر غور کرنے کیلئے لوک سبھا سکریٹریٹ پابند ہوگا۔ لیکن نوٹس موصول ہونے کے بعد راہل گاندھی نے لوک سبھا سکریٹریٹ کو تحریری جواب لکھا ہے کہ پچھلی چار میعادوں سے لوک سبھا کے منتخب رکن کے طور پر اس بنگلے سے ان کی یادیں وابستہ ہیں۔ اس کے باوجود نوٹس میں دی گئی تفصیلات کی تعمیل کریں گے۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ گھر خالی کرنے کا نوٹس کوئی تعجب انگیز نہیں ہے، اس کا امکان اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب راہل گاندھی کو ’ نااہل‘ قرار دیا گیا۔ کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہا کہ راہل گاندھی کو گھر کی فکر نہیں ہے۔اس سے بھی بڑے مسائل داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔خود کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے پیش کش کی ہے کہ اگر راہل گاندھی بنگلہ خالی کرتے ہیں تو میں اپنا بنگلہ خالی کردوں گا۔ راہل گاندھی اپنی والدہ کے ساتھ اس میںرہ سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ راہل گاندھی کیلئے گھرکی کمی نہیں ہے، ان کی ایک پکار پر لاکھوں ہندوستانی خوشی سے ان کیلئے اپنا گھر خالی کردیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کو گھر خالی کرنے کانوٹس حکومت کی طاقت کا ناجائزاستعمال اور اپوزیشن کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ بظاہر حکومت کا یہ قدم قانون کے دائرہ میں آتا ہے لیکن اسے وسیع تر کرکے دیکھاجائے تو اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ راہل گاندھی کو ڈرانے، دھمکانے اور نیچا دکھانے کیلئے حکومت کسی بھی سطح پر جاسکتی ہے۔ سیاسی رواداری، اخلاق، اصول،ضابطے اور قانون کی پاسداری کوئی معنی نہیںرکھتی ہے۔
اس کیس کا تسلسل زمانی(کرونولوجی)دیکھ کر یہی لگتا ہے یہ تمام کارروائی اتفاق نہیں بلکہ کانگریس اور راہل گاندھی کے خلاف ایک منصوبہ بند عمل ہے۔7 فروری کو راہل گاندھی نے اڈانی-مودی تعلقات پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کچھ ایسے سوالات کیے جو بی جے پی کیلئے مشکل کا سبب بن گئے، اس کے ایک ہفتہ کے بعد ہی 16فروری کو سورت کی عدالت میں ہتک عزت کے اس مقدمہ کی سماعت شروع ہوگئی جس پر مقدمہ کے مدعی نے ہائی کورٹ سے اسٹے لے رکھا تھا۔ دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے بیان میں جن لوگوں کا نام لیا تھا،ان میں سے کسی نے بھی ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا۔ نیرو مودی اور للت مودی ملک سے باہربھاگے ہوئے ہیں اور نریندر مودی ملک کے وزیراعظم ہیں، ان میں سے کسی نے بھی راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ نہیں دائر کیا۔یہ مقدمہ کسی دوسرے ہی پرنیش ’مودی‘ نے دائر کیاتھا اوراس نے بھی ہائی کورٹ سے اسٹے لے رکھاتھا۔ پارلیمنٹ میں راہل کے سوالات کے بعد سے اچانک اس مقدمہ میںجان ڈال دی گئی اور عدالت نے تین ہفتوں میں ہی فیصلہ بھی دے دیا۔
23 مارچ کو سورت کی سیشن کورٹ نے راہل گاندھی کو 2019 میں کی گئی تقریر کیلئے مجرمانہ ہتک عزت کا مجرم قرار دیااوراس کے اگلے ہی دن 24 مارچ کو راہل گاندھی کو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت لوک سبھا سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ سرکاری کام کاج میں کچھ وقت لگتا ہے۔عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بھی رہائی میں لوگوں کوکئی دنوں تک جیل میں ہی رہنا پڑتا ہے۔ فائل ایک میز سے دوسرے تک پہنچتی ہے۔ اصول و ضابطوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور اس کے بعد ہی آرڈر پاس کیا جاتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں یہ تمام کام برق رفتار طریقے سے ہوگئے۔ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ سے باہر کرنے کا سارا عمل ایک دن میں ہی مکمل ہو گیا۔ 23 مارچ کی دوپہر کو مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد وہ 24 مارچ کی دوپہر تک رکن پارلیمنٹ بننے کے اہل بھی نہیں رہے اور اس کے بعد انہیں الاٹ بنگلہ بھی خالی کرنے کا حکم دے دیاگیا۔ راہل دشمنی میں تمام زمانی فاصلے چشم زدن میںطے کرلیے گئے۔
حکومت بھلے ہی اسے قانون کے دائرہ میں کیاجانے والا عمل بتائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری کارروائی مبینہ طور پر ملک سے اپوزیشن کی آواز کو ختم کرنے کیلئے منصوبہ بند طریقے سے کی جارہی کوشش کا حصہ بن گئی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS