قطب مینار معاملہ میں مداخلتی عرضی پر فیصلہ محفوظ، دہلی کی ساکیت عدالت 17 ستمبر کو سنائے گی فیصلہ

0

نئی دہلی (ایس این بی) : آگرہ سے جمنا اور گنگا ندی کے درمیان میرٹھ، علی گڑھ، بلند شہر اور گڑگاو¿ں علاقوں پر اپنا دعویٰ کرنے والے کنور دھوج پرساد سنگھ کی مداخلتی عرضی پر عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ انہوں نے یہ عرضی قطب مینار احاطہ کے مندروں میں پوجا کے حق کا مطالبہ کرنے والی اپیل کے تحت داخل کی ہے۔ اس اپیل پر فیصلہ آنا تھا، لیکن مداخلت کار سنگھ نے قطب مینار سمیت دہلی کے آس پاس کے علاقوں پر ہی اپنا حق مانگ لیا ہے۔ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج دنیش کمار نے کہا کہ وہ مداخلت کی درخواست پر اپنا حکم 17 ستمبر کو سنائیں گے۔ انہوں نے ایڈووکیٹ منوہر لال شرما اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ایڈووکیٹ سبھاش گپتا کا موقف سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا، جنہوں نے مداخلت کی درخواست کی تھی۔اے ایس آئی نے مداخلت کی درخواست کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ سنگھ نے اپیل میں کسی حق کا دعویٰ نہیں کیا۔ انہیں پارٹی بننے کا کوئی حق نہیں۔ سنگھ نے بڑے اور وسیع رقبے پر دعویٰ کیا ہے، لیکن پچھلے 150 سالوں سے کسی نے بھی کسی عدالت میں ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ اتنے سال اسی طرح بیٹھے رہے اور ایک بڑے رقبے پر دعویٰ کیا ہے۔ اس کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے اور اسے خارج کیا جانا چاہئے۔ اے ایس آئی نے یہ بھی کہا کہ پچھلے سال ایک سلطانہ بیگم نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور لال قلعہ کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اسے ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ سلطانہ بیگم نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر دوم کے پوتے کی بیوہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی درخواست کو خارج کر دیا گیا کیونکہ اس نے طویل تاخیر کے ساتھ عدالت سے رجوع کیا۔مداخلت کار نے کہا ہے کہ وہ بیسوان خاندان کا وارث ہے، جو راجہ روہنی رمن دھوجا پرساد سنگھ کا خاندان ہے۔ راجہ کا انتقال 1950 میں ہوا۔ درخواست کے مطابق بیسوان خاندان کے نام سے جانا جاتا خاندان اصل میں بادشاہ نندا کی جاٹ نسل سے تھا۔ درخواست میں کہا گیا کہ جاٹ خاندان 1658 میں شاہ جہاں کی موت کے بعد مضبوطی سے قائم ہو گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS