قطب الزماں ممبرم تنگل: ایک عہد ساز شخصیت

0

مفتی رفیق احمد کولاری ہدوی قادری
اس خاکدان گیتی میں کچھ ایسی شخصیات کا ظہور ہوتا ہے جن کا وجود مبارک آئندہ نسلوں کے لیے منارۂ نور ہوتا ہے۔ ان کی نگاہیں صرف اپنے دور کے نشیب و فراز کی زاویہ پیمائی پر نہیں ہوتیں بلکہ وہ روشن و تابناک مستقبل کی محراب فکر کے لیے بھی راست سمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنی مدت زیست میں ہی فصل گل کے نقیب نہیں ہوتے بلکہ وہ متاع عنادل کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی خزاں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ کر دیتے ہیں۔ یہ ایک مسلم و ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھرے بازار سے کوئی خالی واپس آ سکتا ہے، سیل رواں میں بھی کوئی تشنہ گام رہ سکتا ہے، آفتاب نصف النھار کی شعاعوں سے بھی کوئی محرومی کا گلہ و شکوہ کرسکتا ہے، موسمِ گل سے بھی کوئی سوختہ نصیب ہو سکتا ہے،مگر محبت و صحبت ولی اختیار کرنے والا کبھی شقاوت کی فریاد نہیں کرسکتا کیونکہ ہم القوم لا یشکی بہم جلیسہم کا ہم نشین کبھی شکست و ریخت کی آہ بھر نہیں سکتا۔ اسی جماعت مبارکہ کو ہم اپنی اصطلاح میں اولیاء اللہ کہتے ہیں۔ انہیں بندگان مقبولانِ بارگاہ الٰہی کے ایک حسین وجمیل روپ کو شیخ الشیوخ، سلطان العارفین، برہان العاشقین، پیشوائے اصحابِ دین، مشکہائے اربابِ یقین، چشم و چراغِ خاندان رسول جگر گوشہ بتول، قطبِ زماں سیدنا سید علوی بن محمد مولی الدویلہ الحسینی الیمنی رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے سرزمینِ ممبرم کی پاک دھرتی پر اپنی سوز و کیف کی سوغات سرمدی تقسیم کی جس کی بدولت بھٹکے ہوئے قلوب و اذہان پہ ’لا الہ الا اللہ‘ کا نقش دوام ایسا اجاگر ہوا کہ ہر سو تقویٰ و پرہیزگاری کا نیا موسم پیدا ہوا ۔ لوگوں کے مزاج و کیفیت میں تبدیلی نظر آئی، سیرت و کردار میں انقلاب آیا، شقی سعادت و سخاوت کے سانچے میں ڈھلتے نظر آئے، گنہگار اپنے اطوار زندگی بدلتے نظر آئے، بنجر قلوب میں معرفت الہی کے سنبل و ریحان مہکتے نظر آئے ۔ آج وہی ہمہ جہت شخصیت ممبرم کی پاکیزہ دھرتی میں آسودہ خاک ہے۔اسی پاکیزہ ہستی کی سیرت کے چند گوشوں پر یہ فقیر سراپائے تقصیر خامہ فرسائی کرنے کی جرأت کررہا ہے ۔
حضور قطب الزماں سید علوی مولی الدویلہ رضی اللہ عنہ کو اہل ملبار پیار اور شفقت سے ’ممبرم تنگل‘ یا ’عربی تنگل‘ سے یاد کرتے ہیں ۔ ’تنگل‘ ملیالم میں سید کے معنی میں آتا ہے ۔ یہاں کے باشندے سادات کرام کو بڑے احترام سے ’تنگل‘ سے خطاب کرتے ہیں جیسے ہمارے یہاں سید صاحب، سید قبلہ کہتے ہیں کچھ یونہی اہل ملبار سادات کو خطاب کرتے وقت ’ تنگل‘ کہتے ہیں ۔
ولادت با سعادت:
حضرت قطب الزماں سید علوی بن محمد مولی الدویلہ الحضرمی الحسینی سن 1166 ھجری 23/ذی الحجہ کو حضرموت کے قصبہ’تریم‘ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد سیدنا محمد بن سہل مولی الدویلہ رضی اللہ عنہ وقت کے یگانہ روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ خوف و خدا ترسی کے عظیم مقام پر فائز بزرگ ہستی تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ نیک سیرت و صورت خاتون تھیں جو ’جفری خاندان‘ کے رہبر و رہنما کی دختر نیک اختر سیدہ فاطمہ بنت محمد الجفری کے نام سے معروف تھیں ۔ آپ کم سنی میں ہی والدین کی شفقت و محبت سے محروم ہو گئے ۔ آپ کی خالہ حضرت سیدنا حلیمہ بی بی بنت محمد الجفری رضی اللہ عنھا نے آپ کی پرورش بحسن و خوبی انجام دی۔
آپ کے اسم گرامی کے ساتھ جو ’مولی الدویلہ‘ کا لاحقہ ہے اس کے متعلق مفکر اسلام ڈاکٹر محمد ضیاء الدین رضوی مدظلّہ النورانی رقمطراز ہیں کہ: ’مولی الدویلۃ وہو إسم بلد فی الیمن، کان أحد أجدادہ ملکا علی ہذہ البلاد‘ یعنی مولی الدویلہ یمن کے ایک قصبہ کا نام ہے آپ کے اجداد میں سے ایک بزرگ ہستی اسی علاقے کے حاکم تھے۔
نسب مبارک:آپ کا شمار حسینی سادات میں ہوتا ہے۔آپ کے بلند و بالا اخلاق و کردار سے حسینیت کا عکس جمیل ہمیشہ جھلکتا نظر آتا تھا ۔حضرت قطب الزماں تاریخ اسلام کے ان خوش قسمت و منتخب اشخاص میں سے ہیں جو نہ صرف اپنی ذات سے نبوت محمدی کے کمالات و اوصاف کا ایک زندہ معجزہ اور اسلام کی ابدیت، سرمدیت اور اس کی سحرانگیزی و انقلاب آفرینی کی روشن نشانی تھے بلکہ ان کے صاحبزادے سیدنا فضل پوکویا تنگل اپنے عہد میں اولیاء کاملین کا حسین نمونہ اور سلوک و معرفت میں بہت بلند پائے کے بزرگ اور بہت سی خداداد خصوصیات و امتیازات کے حامل تھے۔
تعلیم و تربیت:
حضور قطب الزماں کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی آپ بچپن ہی سے نہایت ہونہار اور ذہین و فطین تھے گویا
بالائے عرش ز ہوشمندی
می تافت ستارۂ بلندی
قطب الزماں سید علوی الحضرمی کی ابتدائی تعلیم و تربیت ان کی خالہ حضرت سیدنا حلیمہ بی بی رضی اللہ عنہا کے ذمہ رہی۔ ابتدائی درسیات کی تمام کتابیں آپ نے حضرموت کے علماء وفضلاء سے حاصل فرمائی پھر آپ نے تکمیل علوم ظاہری و باطنی آپ کے ماموں محترم قدوۃ العارفین سیدنا حسن الجفری رضی اللہ عنہ سے کی کافی ذہین و فطین ہونے کی وجہ سے آٹھ سال کی عمر میں ہی آپ حافظ قرآن ہو گئے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت عمدۃ الواصلین سیدنا حسن جفری رضی اللہ عنہ اپنے اس ہونہار بھانجے کی ایک مختصر مدت تک اپنی روحانی و عرفانی آغوش میں الی اللہ کی لوریوں اور تھپکیوں کے ساتھ مستقبل کے کارہائے نمایاں کے لیے پرورش کرتے رہے ۔
سرزمین ملیبار میں آپ کی تشریفآوری:
جفری خانوادہ کے چشم وچراغ حضرت قطب الزماں رضی اللہ عنہ کے بڑے ماموں محترم حضور عمدۃ الواصلین سیدنا شیخ بن محمد الجفری رضی اللہ عنہ نے سن 1159ھ میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دینے کے لیے سرزمین ملبار میں قدم رنجہ فرمایا ۔ آپ کی پوری زندگی دین کی خدمت، غریبوں اور مسکینوں کی اعانت و صلہ رحمی و حسن سلوک میں گزری۔پھر چند سال گزرے ہی تھے کہ آپ کے برادر اصغر حضور قدوۃ العارفین سیدنا حسن بن محمد الجفری نے سن 1168/ہجری میں کیرالہ کا رخ کیا اور آپ نے بھی خطہء ملبار کو اپنے علمی و روحانی فیضان سے مالا مال کیا ۔ آپ علم وفضل سلوک و معرفت دونوں میں دستگاہ کامل رکھتے تھے ۔ آپ کی بھی ساری زندگی درس و افادہ، عبادت و ذکر اور مراقبہ میں گزری ۔ شریعت مطہرہ پر استقامت اور کمال زہد و احتیاط آپ کے طرۂ امتیاز میں سے ہے۔ آپ نے چند علمی کتابیں بھی تصنیف فرمائیں لیکن افسوس صد افسوس زمانے کے دست برد نے ان کو باقی نہ رکھا ۔ مذکورہ بالا دو عظیم بزرگوں کی آمد ہی حضور قطب زماں رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کا سبب بنا۔ آپ کے عظیم خانوادے کے علاوہ سرزمین ملبار میں دیگر سادات خانوادوں نے بھی دین کی تبلیغ و اشاعت کی غرض نبیل کی خاطر اپنے چمن کو خیر آباد کہہ کر ملبار ک رخ کیا اور یہاں دین و ملت کی خدمت میں ہمہ وقت سرگرم عمل رہے۔اسی تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے مفکر اسلام ڈاکٹر محمد بہاؤالدین ندوی مدظلہ النورانی رقمطراز ہیں: ’ھناک یذکر التاریخ بأن اکثر من مئۃ و عشرین قبیلۃ من آل بیت وصلوا الی خراسان وھاجروا الی بلا د عدیدۃ‘ بتاریخ کے صفحات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دو سو بیس سے زائد اہل بیت اطہار خانوادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خراسان پہنچے اور وہاں سے دنیا کے گونا گوں علاقوں کا رخ کیا ۔ اہل بیت اطہار کے ایک جم غفیر نے یمن چھوڑ کر نانا جان کی دین کی حفاظت و صیانت کے لیے ہندوستان کے ساحلی علاقوں کا رخ کیا۔ جن میں خطہ ملبار سر فہرست ہے ۔
اسے یمنی سادات کے قدوم کی برکت کہئے کہ آج بھی علماء و سادات میں یمنی روایت موجود و رائج ہے۔ بر سرِ مطلب آمدم حضور قطب الزماں علیہ الرحمۃ والرضوان ملبار کے باشندوں کو توحید کا جام پلانے کے لیے اپنی مادری زمین ’تریم‘ حضرموت سے سترہ سال کی عمر میں شہر مکلا کی ایک بار بردار کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہوئے اور ماہ رمضان المبارک کی 19 تاریخ سن 1180 ہجری کو کالیکٹ شہر پہنچ کر دین کی اشاعت میں لگ گئے –
خطہ ملبار میں جن نفوس قدسیہ نے دین اسلام کا پرچم اپنی شبانہ روز مساعی جمیلہ سے سر بلند کیا ان میں حضور قطب الزماں کا نام نامی اسم گرامی بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے آپ نے سترہ سال کی کم عمری میں ہی دین کی تبلیغ و اشاعت کا بیڑہ اٹھایا پھر تا دم وصال آپ اسی کام میں ہمہ تن مصروف عمل رہے۔
تصنیفی خدمات:حضور قطب الزماں ایک عظیم قائد انقلاب اور شیخ مربی تھے اس لیے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق آپ عربی میں ضروری فتاویٰ و تحریرات لکھتے اور آپ کے خلفاء کے ذریعے اسے شائع کراتے تھے۔ لیکن بایں ہمہ مصروفیت آپ نے کچھ مستقل تصنیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں جن میں ’السیف البتار لمن یوالی الکفار و یتخذونھم من دون اللہ و رسولہ والمؤمنین أنصارا‘ معرکۃ الآراء تصنیف شمار کی جاتی ہے ۔
درحقیقت یہ کتاب آپ سے پوچھے گئے آٹھ مختلف سوالات کے مدلل جوابات پر مشتمل ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے باشندگان ملبار کے دل میں انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کی روح پھونکی۔ باشندگان ملبار نے ملک کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔جنگ آزادی کی آتش میں جل کر راکھ بن گئے۔ ملپرم سے لے کر چیرور بازار اور کوچے خون سے لالہ زار ہو گئے۔ شہروں میں جگہ جگہ پھانسیوں کے پھندے لگا دیے گئے ۔ ہزاروں باشندگان ملبار کے سرقلم کردیئے گئے۔ ان مجاہدین میں چند کا نام آزادی کے افق پر اب تک سرخرو اور سنہرے حرفوں میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آزادی کی اس عظیم بغاوت و جنگ میں ہندو مسلم یکجہتی اپنے شباب پر تھی اور آزادی کا نعرہ اگر کسی نے کھل کر لگایا تھا تو وہ تھے حضور قطب الزماں جو انتہائی جواں مردی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف بڑے حوصلے سے لڑتے رہے اور زندگی کے آخری لمحات تک دشمنوں کی گرفت میں نہیں آئے۔
’السیف البتار‘ کے علاوہ عدۃ الأسراء، تاریخ العرب و العربیۃ آپ کی اہم و مشہور تصنیفات میں سے ہے ۔
آپ کی پیشین گوئی:آپ ایک قائد انقلاب ہی نہیں آپ ولایت و قرب الہی کے اعلیٰ مناصب پر فائز ولی اللہ بھی تھے۔ آپ کی دور رس نگاہوں کی فراست کہیے کہ انگریزوں کے زوال و انحطاط کی آپ نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں پیش گوئی فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ: ’انگریزوں کی یہ حکومت و تسلط ایک دن ختم ہو جائے گی اور اہل ملبار پر کمیونسٹ و دہریت کے سیاہ بادل چھائینگے اور کیرالہ کی باگ ڈور و زمام عقل پرستوں کے ہاتھ ہی ہوگی۔
حضور قطب الزماں سید علوی مولی الدویلہ رضی اللہ عنہ جب ہندوستان میں تشریف لائے تب انگریزوں کا تسلط عنفوان شباب میں تھا۔ اور آپ اس وقت فرما رہے ہیں کہ: ’ہندوستان سے مکمل صفایا ہونے کے بعد ملبار میں دہریوں اور عقل پرستوں کا دور دورہ ہوگا، الحاد و لادینیت و گمراہی کی تند و تیز آندھیوں سے ایمان و اعتقاد کے آئینے گرد آلود ہونگے۔ کمیونسٹ نظریات کے علمبردار امت مسلمہ کو صحیح اسلامی عقائد سے بھٹکانے کی محنت شاقہ کرینگے۔امت مسلمہ کے زاویہ سوچ کو ٹیڑھا کرنا اور محراب فکر کو کم کج صحت کرنے کی مکمل سازشوں کا جال بچھا دیا جائے گا۔ یہ روسی نظریات کے قائلین در حقیقت دجال کے خدام و جانشین ہیں ۔ آخر آپ نے اپنے محبوب خلیفہ و مجاز ’حضرت اوکویا مسلیار‘ کو نصیحت کرتے ہوئے ان فرمودات عالیہ کو مسجد کے محراب پر نقش کرنے کا حکم فرمایا۔
وفات پر آیات حسرت:آخرکار وہ اندوہناک لمحہ بھی آیا جس میں لاکھوں معتقدین و متوسلین کا خونِ جگر اشکوں سے بھر آیا۔ آفتاب و ماہتاب غم آلود چہرے سے تمام دن اس ماتم میں شریک رہے وہ اپنے ڈھلتے سائے کو اس افسوسناک گھڑیوں کے ماتم میں شرکت کے لئے چھوڑ کر مغرب کے بادل میں جا چھپے – شفق نے لالہ و گل کا لباس پہن لیا۔ اتوار کی رات سات7/محرم الحرام 1260/ہجری شام کے وقت ملبار کا یہ عظیم روحانی قائد و رہنما زندگی کے تقریباً 94/سال گزار کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا ۔
ادا کرکے قرض اپنی خدمت کا
سحر دم وہ جاگا ہوا رات کا
ابد کے نگر کو روانہ ہوا
مکمل سفر کا فسانہ ہوا
مزار پر انوار:ممبرم جامع مسجد کے قریب آپ کے جسد خاکی کو سپرد خاک کیا گیا۔ اس طرح آپ سرزمین ملبار کو الم فراق دے گئے اور آج بھی آپ کی مزار مقدس زیارت گاہ عوام وخواص ہے ۔ کیرالہ کے مشہور زیارت گاہوں میں آپ کی مزار کا شمار ہوتا ہے جہاں ہمہ وقت مخلوق کی ایک کثیر جماعت پہنچتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS