پیر کے روز تامل ناڈو کے گورنر نے اسمبلی سے اس وقت واک آئوٹ کیا جب وزیراعلیٰ اسٹالن نے ایک قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ صرف وہی تقریر ہی اسمبلی کے ریکارڈ پر جائے گی جوکہ موسم سرما کے پہلے اجلاس میں گورنر کو پڑھنے کے لئے دی گئی تھی۔ یعنی صرف ریاستی سرکار کے ذریعہ منظورشدہ متن اسمبلی کی کارروائی کا حصہ ہوگا۔ یہ غیرمعمولی صورت حال ہے اور ہندوستان کی کئی ریاستوں بطور خاص جنوبی ہندوستان میں جہاں جہاں غیربی جے پی کی سرکاریں ہیں گورنر اور ریاستی سرکاروںکے درمیان ٹکرائو ہورہا ہے۔
مرکز صوبائی گورنروںکو مقررکرتا ہے۔ 2014سے تامل ناڈو، کیرالہ، تلنگانا کی ریاستوں میں جہاں ڈی ایم کے، بایاں محاذ اور ٹی آر ایس اقتدار میں ہیں۔ تقریباً یہی صورت حال ہے۔ ان ریاستوں میں تنازعات چل رہے ہیں۔ ان ریاستوں کی منتخب حکومتوں کا الزام ہے کہ ان کی ریاستوں کے گورنر بی جے پی کے پراکسی کے طورپر کام کر رہے ہیں۔ ا س کے علاوہ تلنگانا میں گورنر ریاستی سرکار پر الزام لگا رہے ہیںکہ وہ غیرجمہوری انداز سے کام کررہے ہیں۔ ڈی ایم کے نے اور ٹی آر ایس نے صدرجمہوریہ ہند دروپدی مرمو سے شکایت کی ہے کہ گورنر غیرمناسب طریقے سے کام کاج میں مداخلت کر رہے ہیں۔ ڈی ایم کے نے گورنر سے ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔ یہی صورت حال مغربی بنگال میں میں بھی دیکھی گئی جہاں وزیراعلیٰ ممتابنرجی اور موجودہ گورنر سے پہلے گورنر کے عہدے فائز رہے جگدیپ دھنکڑ کئی ایشوز پر لڑتے جھگڑتے رہے۔ حالات اس وقت بدلے جب دھنکڑ کو ہندوستان کا نائب صدر جمہوریہ بنایا گیا۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ مغربی بنگال کی حکومت نے اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کرکے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ کو ہی ریاستی یونیورسٹیوںکا چانسلر بنایا جائے اور 17ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کے عہدے سے دھنکڑ کا نام ہٹایا جائے۔ جوکہ گورنر ہونے کی وجہ سے ان یونیورسٹیوںکے چانسلر تھے۔
کم وبیش یہی صورت حال دہلی میں بھی ہے۔ دہلی میں لیفٹیننٹ گورنر مرکزی سرکار کا نمائندہ ہوتا ہے اورمرکزی سرکار ہی اس کو مقررکرتی ہے۔ دہلی میں 2014سے عام آدمی پارٹی اور مختلف لیفٹیننٹ گورنروںکے درمیان ٹکرائو کی خبریں قومی اخباراورمیڈیا کی سرخیوںمیں رہی ہیں۔ چاہے اس میں نجیب جنگ ہوں، انل بیجل ہوں یا موجودہ ونے کمار سکسینہ۔ الزام ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کا آفس عام آدمی پارٹی کی سرکار کی اسکیموں، احکامات میں مداخلت کر رہا ہے یہ الزام ہے عام آدمی پارٹی کا۔ عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ عوامی فلاح وبہبودکے کاموں مثلاًمحلہ کلینک اور اسکولوں کو بہتر بنانے کی اسکیموں میں گورنر اڑچن ڈال رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی گورنر پر کرپشن کے الزامات لگاتی ہے۔ ان کے خلاف دھرنے دیتی ہے اور اروند کجریوال کی حکومت میں جو سرکاری افسران تعینات ہیں ان کے کام کاج میں اور ان کی تقرریوںمیں بھی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ عدالتوں میں یہ سوال بھی بار بار ابھرا ہے کہ دہلی میں سرکار کا ہیڈ کون ہے؟ دہلی ہائی کورٹ نے ایل جی کی حمایت میں فیصلہ صادر کیا تھا جبکہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آیا ہے کہ منتخب حکومت کے مشوروںپر عمل کرنا لیفٹیننٹ گورنر کی مجبوری ہے۔
کچھ سال قبل کم وبیش یہی صورت حال پانڈیچری میں پیش آئی۔ پانڈیچری میں ریاستی حکومت اور سابق گورنر کرن بیدی کے درمیان تصادم کی خبریں سرخیوں میں رہیں۔ پانڈیچری کی لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی(سابق آئی پی ایس) کانگریس کی قیادت والی سرکار پر دبائو ڈال کر ان کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کرتی رہیں۔ مگر کرن بیدی نے بعض اوقات تو مرکز کے ذریعہ عائد کی گئی حدوں تک کو عبورکیا اور کئی موقعے ایسے آئے جب مرکزی سرکار کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔آخرکار کچھ دن بعد مرکز نے کرن بیدی کو واپس بلا لیا۔٭٭
گورنروں کے رول پر اٹھ رہے ہیں سوال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS