مرکز اور ریاستوں کے درمیان نظریاتی اختلافات کتنے حقیقی

0

چند روز پہلے تمل ناڈو کی اسمبلی میں غیرمعمولی مناظر دیکھے گئے جب اجلاس کے آغاز پر گورنر آر این روی اورریاستی سرکارکے درمیان ٹکرائو سامنے آیا۔ یہ ٹکرائو ان معنوںمیں اچھوتا نہیں ہے کہ وہ ریاستیں جہاں بی جے پی کی سرکاریں نہیں ہیں وہاں گورنروںپرالزام لگ رہا ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار اور آئینی مینڈیٹ سے آگے بڑھ کر ریاستوںکے کام کاج میں مداخلت کر رہے ہیں۔ تمل ناڈو دراوڑ سیاست کا مرکز ہے۔ اور موجودہ گورنر آر این روی گورنر نے نظریاتی بحث چھیڑ کر ریاست کی سیاسی اساس کو چھیڑ دیا ہے۔ اسمبلی اجلاس کی کارروائی کے دوران گورنر نے ریاست کے نام کو تھامی کھزگم کہا جس کے معنی ہیں تملوں کا گھر۔ جبکہ ریاست کا نام تامل ناڈو ہے یعنی تملوںکا ملک۔ ظاہر ہے یہ موقف ڈی ایم کے کی ریاست کے ساتھ براہ راست ٹکرائوکی وجہ مانا ہے۔ جب سے موجودہ گورنر آر این روی ایک سال قبل چنئی میں آئے ہیں ان کے ساتھ ریاستی سرکار کے کئی ایسے تنازعات پیدا ہوگئے ہیں جو کئی ماہرین کی نظر میں ناپسندیدہ اور انتشارپیدا کرنے والے ہیں۔ ایک فنکشن کے دوران انہوں نے دراوڑ نظریات کی بجائے سنادھنا دھرما کی بات کہی۔ یہی اس تنازعے کی جڑ تھی۔ ریاست میں ان کی آمدکے بعد عدالت میں عرضی داخل کی گئی جس میں تامل ناڈو میں ان کی تقرری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ بعد میں عدالت نے ان کی تقرری پر اعتراضات کو رد کردیا تھا۔
ریاستی سرکار و گورنر کے درمیان ٹکرائو ہندوستان میں نیا نہیں ہے۔ گورنر ریاست میں مرکز کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ ریاست میں چنی ہوئی سرکار کے کام کاج پر اگرچہ نظر رکھتا ہے مگریہ تصور عام ہے کہ اس کو ریاست کی منتخب سرکار کے کام کاج میں مداخلت کرنے یا اس میں روڑے اٹکانے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ مگر پچھلے دنوں تامل ناڈو میں گورنر اور ڈی ایم کے سرکار کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق راج بھون میںریاستی سرکار کے کم از کم 10ایسے بل ہیں جوکہ گورنر کی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آئینی شخصیات اور آئینی عہدوںپر بیٹھے افراد اور منتخب سرکار کے درمیان یہی اختلاف رائے اوراس درجہ کا اختلاف رائے روزمرہ کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنے والا ہے۔ ریاستی سرکار خاص طور سے تامل ناڈوں میں گورنر اور منتخب سرکاروںکے درمیان ٹکرائو کے غیرمعمولی واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایک دور میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے لیڈر اوروزیراعلیٰ جے للتا جوکہ اپنے سخت مزاج اور انتظامی امور میں گہری پکڑ کے لئے مشہور تھیں انہوں نے ریاستی گورنر کو بھی اجلاس کا افتتاح کرنے کے لئے دعوت نامہ نہیں بھیجا تھا۔ یہ دعوت نامہ ریاستی سرکار کے سربراہ یعنی وزیراعلیٰ گورنر کو بھیجتے ہیں۔ اپنے وزیراعلیٰ کے عہدے پر منتخب ہونے کے بعد ہی اجلاس کی پہلی کارروائی میں جے للتا نے ایسا کرکے ریاست کو ایک غیرمعمولی آئینی بحران سے دوچار کیا۔ اسی طرح جے للتا نے گورنرپر یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ دراوڑ سیاست کے دواہم ستون ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے دونوں ہی مختلف مواقع پر اس قسم کے تنازعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مگر اس مرتبہ موجودہ گورنر آر این روی بالکل نظریاتی سطح پر ایسے ایشوز اٹھا رہے ہیں جن سے نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ بی جے پی کے ہمدرد ہیں۔ اگرچہ وہ ریاستی سرکار کے ساتھ کسی براہ راست تصادم سے اجتناب کر رہے ہیں مگر وہ وزیراعلیٰ این کے اسٹالن کے دراوڑ ماڈل پر اپنی ناراضگی اور تحفظات ظاہرکرچکے ہیں۔ یہ اختلافات ایسے امورمیں سامنے آرہے ہیں جوکہ ایم کے اسٹالن کے سیاسی وجود اور ان کے نظریات کے اساس ہیں۔ تامل ناڈو کی دراوڑ فکر قومی مین اسٹریم سیاست سے مختلف ہے۔ گورنر صاحب کا کہنا ہے کہ یہی سوچ ریاست کی ترقی میں مانع ہے۔ جبکہ ریاستی سرکار اور ان کے دراوڑ حامیوںکا کہنا ہے کہ گورنر صاحب یہ بھول جاتے ہیں کہ انہی نظریات پر عمل کرکے جنوبی ہند کی یہ بڑی ریاست شمالی ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ بنی ہے۔ نئے سال کے موقع پر گورنر صاحب نے ایک ایسی حرکت کی جوکہ غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔ 9؍جنوری کو جب انہوں نے نئے سال کے موقع پر تامل ناڈو اسمبلی کا افتتاح کیا توانہوں نے دراوڑ تحریک کے کچھ اہم نام نہیں لئے۔ جبکہ گورنر نے ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر اور سماجی مصلح لیڈر پیریار ای وی راماسوامی کا نام لیا۔
خیال رہے کہ کسی بھی ریاستی گورنر کو ریاستی سرکار کے لئے تیار کیا گیا خطبہ ہی پڑھنا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے۔ گورنر نے اس پرانی روایت کو نظرانداز کرکے آئینی طورطریقوںکی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ بات دراوڑ تحریک کے ماننے والوںکے لئے تکلیف دہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو کھلم کھلا بی جے پی کا ایجنٹ کہا گیا کہ انہوںنے جان بوجھ کر ریاست کی اہم شخصیات کو نظرانداز کیا۔ اس موقع پر ریاست کے وزیراعلیٰ اسٹالن نے ایک ریزلویشن پیش کیا جس میں انہوںنے ریاست کے گورنر پر الزام لگایا کہ انہوں نے ریاستی اسمبلی میں پڑھے جانے والے خطبے میں کچھ اہم نکات کونظراندازکیا اورپڑھا نہیں۔ روی کے اس قدم کے خلاف ریاستی اسمبلی میں ایم کے اسٹالن نے ایک قرارداد پیش کی جس میں گورنر کے اس رویہ کی نکتہ چینی کی گئی تھی۔ گورنر کی موجودگی میں اس قرارداد کا سامنے آنا اس تنازع کی جڑ ہے۔ گورنر نے اس وقت اسمبلی سے واک آئوٹ کیا جب وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن خود یہ قرارداد پڑھ کر پیش کر رہے تھے۔ اسمبلی سے وزیراعلیٰ کے خطبہ کے دوران گورنر کا واک آئوٹ کرنا ریاستوں اورمرکز کے رشتوں اورپارلیمانی اقداراور آداب کی پامالی کے تناظر میں غیرمعمولی واقعہ ہے۔ جس پر گرماگرم بحث ہورئی ہے۔ خیال رہے کہ جنوبی ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح تامل ناڈو میں بھی زبان، ثقافت، رسم ورواج اور نسل کے امور انتہائی حساس تصور کئے جاتے ہیں۔ تامل ناڈو کی اہم شخصیات دراوڑ سیاست دانوں اورمبصرین کی رائے ہے کہ دائیں بازو کے نظریات کے لوگ ریاست کے اندر اور ریاست کے باہر دونوں جگہ اشتعال انگیزی کی سیاست کررہے ہیں۔ اس معاملے کو لے کر دونوں مکاتب فکر میں شدید اختلافات اور بیان بازی سامنے آرہی ہے۔ یہاں پر اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے ہمیں تامل قوم پرستی اور دراوڑ اقدار جیسے ایشوز پر غورکرنا ہوگا۔ تامل قوم پرستی دراوڑ تہذیب اور قدیمی زبان سے مربوط اور وابستہ ہے۔ تامل ناڈو میں دراوڑ نظریات ریاست کے اندرسماجی اصلاحات سے بھی مربوط ہیں۔ ہندوستان میں تامل نظریات ہمیشہ سے حاوی رہے ہیں۔ آزادی سے قبل اورآزادی کے بعد زبان کے معاملے پر کافی رسہ کشی دیکھی گئی ہے۔ 1930کی دہائی میں اور بعدازاں 1960 میں ہندی کی بالادستی کے معاملے پر ریاست میں کافی کشیدگی دیکھی گئی تھی۔ تامل ناڈو کے سیاست داں اپنی زبان و تہذیب پر اور سیاسی نظریات پر خارجی دبائو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی طویل عرصہ سے یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں اپنا عمل دخل بنائے۔ ووٹر بڑھائے مگراس پر ہندی، ہندواور ہندوستان کی پارٹی کا ٹھپہ ہونے کی وجہ سے خاطرخواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ مگر تامل ناڈو میں اس کی ایک نہیں چل رہی ہے اور بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ اکثریت نواز ہے۔ مگراکثریہ کہا جاتا ہے کہ دہلی کے ذریعہ تعینات کئے جانے والے گورنر وغیرہ تملوں اور دراوڑ احساسات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دراوڑ تہذیب اورنظریات تامل ناڈو کی سیاست میں بہت گہرائی سے گھلے ملے ہوئے ہیں۔ اب یہ صورت حال مرکز اور ریاستوںکے درمیان ٹکرائو سے آگے بڑھتا نظریاتی سطح پر دکھائی دے رہا ہے۔ گورنر روی مرکز کے نمائندے ہیں اور ڈی ایم کے کی سرکار مرکز کے ذریعہ ’تھوپی‘ جانے والی آئیڈیالوجی کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ تامل ناڈو کی بجائے تھامی از گم کہنا اس نظریاتی لڑائی کی اساس کی جڑ پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ ایک ہی زبان تھوپ دے جوکہ تملوں یا ریاست کی بنیاد پر قائم ریاستوں، کیرالہ، تمل ناڈو وغیرہ کے لوگوں کو ناراض اورمشتعل کرتی ہے۔ جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ تامل ناڈو ملک کی قومی مین اسٹریم سے الگ کرنے کا نظریہ ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ا س قسم کی اصطلاحات کا استعمال کرنا ریاست کی نظریاتی اساس کو چھیڑنا ہے۔ یہ ایک خودمختار ریاست کو مرکز کے زیرانتظام ریاست بنانے کی ایک ناپاک سازش ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS