ڈاکٹرریحان اخترقاسمی
قطر کا شمار مغربی ایشیا کے ایک اہم ترین ملک میں ہوتا ہے جو جزیرہ نمائے عرب میں واقع ہے معاشی اعتبار سے قطر دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک اہم ملک ہے اور عالمی سطح پر اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے اور عرب لیگ،اقوام متحدہ، تنظیم تعاون اسلامی جیسی تنظیم کا ایک فعال رکن ہے ساتھ ہی قطر کے یوروپی ممالک کے ساتھ بھی اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں۔قطر سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان واقع ایک امیر ملک ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس ملک کی فی کس سالانہ آمدنی ایک لاکھ 28 ہزار ڈالر ہے جو کہ امریکا،سنگاپور اور اپنے پڑوسی دیگر خلیجی ممالک کی فی کس سالانہ آمدنی سے زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ قطر کو مشرقی وسطی کا’’ویگس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قطر آج ہمیں جس حالت میں نظر آتا ہے وہ ماضی میں ایسا نہیں تھا بلکہ اگر چند سال پہلے کے حالات کو دیکھیں تو قطر صرف ایک صحرا تھا جس میں غربت،بھوک اور بوریت کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا سوال یہ ہے کہ قطر جو گزشتہ میں اتنا غریب تھا آج سارے ممالک میں سب سے زیادہ امیر ترین ملک کیسے ہوگیا؟اس کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جس کا آغاز 1916ء سے ہوتا ہے جب قطر کے اس وقت کے امیر عبداللہ ثانی نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق برطانیہ کو کسی بھی زمینی یا سمندری صورت حال میں قطر کا دفاع کرنا ہوگا جس کے بدلے میں قطر اگلے 55 سال تک برطانوی کالونی کا حصہ رہے گا ساتھ ہی قطر سے نکلنے والے ہر قدرتی وسائل میں برطانیہ کی بھی برابر کی حصہ داری رہے گی۔
1940 میں قطر میں پہلی بار تیل کی دریافت ہوئی اور 1960تک تیل کو نکالنے کا کام عروج پر تھا اور یہیں سے قطر کے حالات آہستہ آہستہ بدلنا شروع ہوگئے تھے مگر ابھی بھی کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی مگر 1970 میں ’شل آئل کمپنی‘ نے اس ملک کا سب سے بڑا خزانہ دریافت کیا (نورتھ فیلڈ) دنیا کی سب سے بڑی قدرتی گیس لیکن اس زمانے میں گیس کو بہت زیادہ سودمند نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ گیس کو اس زمانے میں پائپ لائن کے ذریعے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا تھا اور قطر گیس استعمال کرنے والے ممالک سے اتنا دور تھا کہ وہاں پر پائپ لائن پہنچانا ناممکن تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیل آئیل کمپنی بھی اس قدرتی گیس کی دریافت کو بھول گئی اور یہ بس ایک دستاویز بن کر رہ گئی۔ 1971ء میں قطر کو برطانیہ سے آزادی ملی اور وہ ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا،آزادی کے 25 سال بعد تک بھی قطر کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سال 1995ء قطر کی ترقی کے تعلق سے ایک اہم سال ہے کہ اس سال حماد بن خلیفہ الثانی نے بغاوت کر کے اپنے باپ خلیفہ بن حماد الثانی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور قطر حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنی ساری توجہ قدرتی گیس کی طرف لگا دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ قدرتی گیس ہمارے ملک کی حالت بدل سکتی ہے اور انہوںنے ایک ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا کہ جس میں گیس کو لکوڈ(سیال، آبی)شکل میں تیار کرکے بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر پائپ لائن کے بھیجا جا سکتا ہے اور قطر نے اپنی توجہات اسی کام میں صرف کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج قطر گیس سپلائی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور انڈیا,جاپان اور شمالی کوریا جیسے بڑے ممالک کو قطر گیس سپلائی کر کے لاکھوں،اربوں ڈالرز کی سالانہ آمدنی کرتا ہے۔
دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے قدرتی وسائل کی دریافت کی اور اس سے وہ اربوں ڈالرز میں آمدنی بھی کرتے ہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ قطر نے ایسا کون سا انوکھا کام کیا جو وہ ان سب ممالک سے ہر اعتبار سے آگے نظر آتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ قطر نے اپنی آمدنی کو دوسرے کاموں میں انویسٹ (سرمایہ داری) کیا جس کے لیے قطر نے سال 2005میں ’قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائی جس کا مقصد تیل اور گیس سے ہونے والی آمدنی کو پوری دنیا میں انویسٹ کرنا تھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا کے ہر بڑے ملک اور بڑی کمپنی میں قطر انویسٹمنٹ نظر آتا ہے، خواہ امریکہ اور برطانیہ کے بڑے بڑے ہوٹلز اور اپارٹمنٹ ہوں یا روس اور دوسرے بڑے ممالک کی تیل کمپنی یا ہوٹل وغیرہ قطر انویسٹ مینٹ ہر جگہ نظر آ جاتی ہے جو کہ قطر آمدنی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اس کے علاوہ قطر کی ایک بڑی انویسٹمینٹ بڑی بڑی شاہراہوں،بندرگاہوں اور ریسرچ سینٹرز پر بھی ہے اور دنیا کے مختلف کھیلوں جیسے فٹ بال وغیرہ میں بھی قطر کی ایک اچھی خاصی انویسٹمنٹ ہے جس کی مثال فرانس کے ایک بہت بڑے فٹبال کلب میں قطر کی بہت بڑی انویسٹمنٹ ہیں جس میں ’میسی‘ اور’ نیمار‘ جیسے دنیا کے نامور اور مشہور ترین فٹبال کھلاڑی کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 2022 ء فیفا ورلڈ کپ جو کہ دنیا کے کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ ہوتا ہے یہ بھی قطر میں ہی منعقد ہو رہا ہے جس کے لیے قطر نے دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور ہر طرح کی سہولیات سے لیس بہترین قسم کے فٹبال میدان تیار کرائے ہیں۔
قطر نے خود کو معاشی اعتبار سے مستحکم بنا کر بین الاقوامی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا عرب میڈیا نیٹ ورک شروع کیا جسے آج ہم ’الجزیرہ‘ کے نام سے جانتے ہیں،چونکہ قطر ایک عرصے تک سعودی عرب کے زیر اثر رہا ہے اور نئے امیر خلیفہ بن حماد بھی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر قطر کو دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنانا ہے تو اس کے لئے اس کی الگ سے پہچان بہت ضروری ہے پوری دنیا تک قطر کی آواز پہنچانے میں الجزیرہ نے ایک اہم رول ادا کیا ہے، سال 2010کی ’ عرب اسپرنگ‘ تحریک(حکومت مخالف مظاہرے) کے دوران الجزیرہ واحد ایسا چینل تھا جس نے اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ(براہ راست نشر) کیا جس کی وجہ سے الجزیرہ کو سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور دیگرعرب ممالک کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔الجزیرہ کے اثر کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب سال 2017 میں عرب ممالک نے قطر کا بائیکاٹ کیا تھا تو اس کو ختم کرنے کے لیے جو پہلی شرط تھی وہ الجزیرہ کو بین (دائمی پابندی) کرنا تھا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تو 2017 سے اب تک اس چینل پر حکومت کی جانب سے بالکلیہ پابندی ہے،چنانچہ اس بائیکاٹ میں سعودی عرب کو ناکامی ہاتھ لگی اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اس بائیکاٹ میں سارے عرب ممالک شامل نہیں تھے، دوسرے قطر کے ترکی اور ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں جس کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات گو کہ قطر سے ناراض ہیں مگر دیگر ممالک قطر کو ایک نیوٹرل اسٹیٹ سمجھتے ہیں اور اس لیے پوری دنیا میں چھ ممالک کے علاوہ کسی نے بھی اس بائیکاٹ کو اپنی حمایت نہیں دی۔ قطر کے پاس قدرتی گیس کی وجہ سے مستقبلی فوائد اور الگ امتیاز ہے اور وہ یہ ہے کہ تیل کے بارے میں ماہرین یہ کہتے ہیں کہ 2030 ء نہیں تو زیادہ سے زیادہ 2040 ء تک تیل کا متبادل مل جائے گا یعنی تیل کی جگہ بجلی کے استعمال سے لوگ اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں لیکن اِس کے بارے میں ایسی کوئی پیشین گوئی نہیں ہے کہ گیس کا بھی متبادل تلاش یا دریافت کر لیا گیا ہو، بلکہ اس کے الٹ گیس کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے حال ہی میں روس اوریوکرین میں جنگ کی وجہ سے روس کی جانب سے گیس پائپ لائن کے بند ہونے کی وجہ سے قطر گیس کی مانگ میں دس فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یوروپی ممالک بھی اب گیس کے لیے قطر کی طرف دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے قطر معاشی طور پر اور مضبوط کھڑا ہوا نظر آئے گا۔ اس سال یعنی 2022ء تک قطر کی’’اینرجی ایکسپورٹ‘‘پہلے ہی 10 بلین ڈالر کو پار کر چکی ہے تو جب کل باقی عرب ممالک تیل کے متبادل سے پریشان ہوں گے تو وہی قطر کو اس بدلاؤ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
حال کے دنوں میں قطر میں سب کچھ اچھا بھی نہیں ہے حالیہ دنوں میں مزدور طبقے کی حالت کے متعلق سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے لیکن پھر بھی قطر باقی عرب ممالک کے مقابلے میں کافی اوپن اسٹیٹ ہے جہاں میڈیا کی آزادی ہے اور معاشی حالت کافی بہتر ہے۔قطر کی آبادی کا 60 فیصد وہ حصہ ہے جو ساؤتھ ایشین(جنوبی) ہے جو غربت سیاست اور دیگر وجوہات سے اپنے اپنے ملکوں سے آکر قطر میں رہتے ہیں اور اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرتے اور خواب دیکھتے ہیں کہ کب ہمارا ملک بھی قطر کی طرح ترقی کرے گا، یہ مزدور طبقہ قطر میں رہ کر ایک دوسرے کی خوشی و غمی کے ساتھی بنتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ اپنے اپنے ملکوں میں واپس جاتے ہیں تو سیاست کا شکار ہوکر ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔
[email protected]