ایغور مسلمانوں پہ چین کی زیادتیاں پھر سرخیوں میں

0

محمد عباس دھالیوال

چین میں اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کی خبریں اکثر میڈیا میں آئے دن آتی رہتی ہیں۔ خصوصاً ایغور مسلمانوں کے خلاف جس طرح کے جارہانہ برتاؤ کا اس کی طرف سے مظاہرہ سامنے آتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایغور مسلمانوں پہ ظلم و زیادتی کولے کر پوری دنیا میں چین کی جس طرح سے فضیحت ہوتی رہتی ہے خصوصاً مسلم ممالک کے عوام میں جس طرح ایغور کولے کر تشویش پائی جاتی ہے وہ بات بھی کسی سے پنہاں نہیں ہے۔ اب حال ہی میں مذکورہ چینی مسلمانوں کولے کر جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس کی بنا پر ایک بار پھر سے چین سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ تازہ اعداد شمار والی رپورٹ جو کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مِشل بیچلیٹ کی طرف ایک طویل انتظارکے بعد منظر عام پر آئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں اقلیتوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا برتاؤ انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ سنکیانگ میں تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے مِشل بیچلیٹ لکھتی ہیں کہ چین کی سنکیانگ میں ایغور اقلیت کے خلاف 2017 سے 2019 کے درمیان ’دہشت گردی اور انتہا پسندی‘کے خاتمے کی مہم بین الاقوامی قوانین کے تحت خدشات کو جنم دیتی ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ سنکیانگ چین کا خود مختار علاقہ ہے جہاں ایغور اقلیت آباد ہے۔ اس جگہ 2017 سے 2019 کے درمیان چین کے اداروں نے پکڑ دھکڑ شروع کی تھی جس کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مہم کا نام دیا گیا تھا۔
مذکورہ حوالے سے مِشل بیچلیٹ نے 48 صفحات پر مشتمل رپورٹ ترتیب دی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سنکیانگ میں مسلمان اقلیت ایغور سمیت دیگر مسلمان گروہوں کے خلاف بیجنگ کے امتیازی سلوک اور حراست میں رکھے جانے کے من مانی اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں کے مکینوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق سلب کیے گئے جن کو بین الاقوامی جرائم خاص طور پر انسانیت کے خلاف اقدامات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور امریکہ کی حکومت بیجنگ پر ایغور مسلم اقلیت کے خلاف سنگین زیادتیوں کا الزام لگاتے ہیں، جن میں تشدد، جبری نس بندی، جنسی استحصال اور بچوں کو جبری طور پرعلیحدہ کرنا شامل ہے۔ ادھر انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ جیسے گروہوں کی جانب سے پہلے بھی اسی طرح کی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں جن میں کہا جاتا رہا ہے کہ چین میں نسلی اقلیتوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے۔ سنکیانگ کے لگ بھگ 10 لاکھ ایغور افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ مِشل بیچلیٹ نے نام نہاد پیشہ ورانہ تعلیم کے چین کے حراستی مراکز کی صورتِ حال کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان مراکز میں جبری طبی علاج کیا جاتا ہے جب کہ حراست کے دوران ان افراد کو بدترین صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایذا رسانی اور بد سلوکی کے ساتھ ساتھ بدتر حالات شامل ہیں اور ان الزامات کے قابل اعتبار شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق اسی طرح جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات بھی قابلِ اعتبار ہیں۔ مذکورہ رپورٹ پہ چین کے تاثرات بھی سامنے آئے ہیں اس ضمن میں چین نے اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی مشل بیچلیٹ کی رپورٹ پر کہا ہے کہ بیجنگ کے خلاف طاقتوں کی جانب سے گھڑی جانے والی گمراہ کن معلومات، جھوٹ اور مفروضوں پر مبنی نام نہاد جائزہ رپورٹ چین کے قوانین اور پالیسیوں کو مسخ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کو دیے گئے ایک جواب میں چین نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ بیجنگ کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کرتی ہے جب کہ یہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ اس ضمن میں چین کے مندوب ڑانگ جون نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سنکیانگ کے من گھڑت مسئلے کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں، جن کا مقصد چین کے استحکام کو نقصان پہنچانا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے اس رپورٹ کو جاری ہونے سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ’انہوں نے رپورٹ نہیں پڑھی۔ یہ ان کی نہیں، انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی رپورٹ ہے۔‘ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ ان کے کام میں مداخلت کرنا یا اس پر اثر انداز ہونا نہیں چاہتے، چاہے وہ مِشل بیچلیٹ ہوں یا کوئی اور، جو اس عہدے پر فائز ہو۔ ادھر ایک نیوز رپورٹ میں اسٹیفنن دوجارک کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے بارے میں گوتریس کا موقف واضح ہے۔ انہوں نے فروری میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں کہا تھا کہ انہوں نے چینی حکام سے کہا ہے کہ انہیں سنکیانگ میں انسانی حقوق کا مکمل احترام کرنا چاہیے اور اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دینی چاہیے۔
ادھر انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ چائنا‘ کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن کا کہنا ہے کہ یواین کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کے اخذ کردہ نتائج یہ وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں چین کی حکومت نے سنکیانگ سے متعلق رپورٹ کی اشاعت کو روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ سے چین کی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا پتا چلتا ہے۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو اس رپورٹ کو ایغور اقلیت سمیت دیگر افراد کو نشانہ بنا نے والی چین کی حکومت کے انسانیت کے خلاف جرائم کی جامع تحقیقات شروع کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہیے اور ذمہ دار افراد کو جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS