سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاج ہندو مسلم کی لڑائی نہیں، آئین کے تحفظ کی جنگ

0

سید عینین علی حق
شہریت قانون ، این آر سی اور این پی آرکے خلاف ملک متحد ہوچکا ہے۔ملک میں ہو رہے احتجاجی مظاہروں میں سب سے اہم کردار نئی نسل خصوصاً طلباءنے ادا کیا ہے۔ بلا تفریق مذہب و ملت سبھی مذاہب کی جانب سے سی اے اے اور این آرسی کی مخالفت کی جارہی ہے۔اور مظاہرین ہنوذ احتجاج کررہے ہیں اور ان کا یہی کہنا ہے کہ ہم جب تک مظاہرہ کرتے رہیں گے جب تک یہ قانون واپس نہیں لے لیا جائے ، کیوں کہ یہ لڑائی ہندو مسلم کی نہیں ، بلکہ ملک کے آئین اور جمہوری اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ 
پروفیسر آبھا دیوحبیب نے کہاکہ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آرایک ایجنڈہ ہے۔ ہر شہری کے لیے آبا واجداد کے دور کے کاغذات جمع کرنا ایک مسئلہ ہے، بلکہ ناممکن سی بات ہے۔ملک کی معیشت بالکل تباہ ہوچکی ہے، لیکن اس پرکسی کی توجہ نہیں ہے۔ در اصل حکومت نے اہم مسائل پر سے دھیان ہٹانے کے لیے اس قسم کے ایجنڈے اٹھائے ہیں۔وہیں سرکاری ادارے اور محکمے نیلام کیے جارہے ہیں، یہ سب کچھ نظم ونسق کی ناکامی اور ملک کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ ہماری نئی نسل آج سڑکوں پر ہے ، جوکہ ہمارے لیے قابل مبارک باد ہے۔ کیوں کہ وہ ملک کا آئین پڑھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں۔سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے معاملے نے نئی نسل اور ملک کے عوام کو متحد بھی کیا ہے۔ستیہ وتی کالج کے استاذ ڈاکٹر مینک کمار نے کہا کہ حکومت کا منفی کردار رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کی مختلف تہذیب وثقافت رہی ہے۔ دھرم کی بنیاد پر شناخت بٹوارے کی سیاست کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔اس وقت ملک داخلی پریشانیوں مبتلا ہے۔اوراس قسم کے شگوفے سے نئی نسل کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔میرے والد کو فارسی اور انگریزی آتی تھی اور ہندی آتی ہی نہیں تھی۔اگر ایسے ملک کو زبان اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا تو مشکل ہوجائے گی۔خالصہ کالج شعبہ انگریزی کے استاذ اور اکیڈمک کونسل دہلی یونیورسٹی کے رکن ڈاکٹر سیکت گھوش نے کہاکہ سنگھ کے سیاسی ایجنڈے کے تحت سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو قانونی اور پرشاسنک بنیاد بنا کر ہندو راشٹر قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سی اے اے مسلم قوم کے خلاف اس لیے ہے کیوں کہ یہ قوم مذہبی تفریق کے لیے صرف مسلمانوں کو ذمہ دار ٹہراتی ہے۔ یہ قوم دوسروں کو مذہبی تفریق کا ذمہ داری نہیں سمجھتی ہے۔ جب کہ مودی حکومت کے سایے میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے آئے دن نفرت کا شکار بنایا جاتا ہے۔ آزاد ہندوستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے سیکولر انڈیا کو بچانے کے لیے ، آئین کو زندہ وجاوید رکھنے کے لیے، ہم سب کو سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف مہم میں شامل ہونا پڑے گا۔جامعہ ملیہ کی الیومنائی ساکشی گابا نے کہاکہ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی بالکل بھی حمایت نہیں کرتی ہوں۔ کیوں کہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے اور مذاہب کے مابین تفریق پیدا کرتا ہے۔اس قانون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ خصوصاً مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر رہا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے سبھی مذاہب سے وابستہ افراد متاثر ہوں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا، جن کے کاغذات قدرتی آفات میں بہہ گئے، وہ کس طریقے سے خود کو ہندوستانی شہری ثابت کریں گے۔ اس کے علاوہ سماج میں متعدد ایسی خواتین ہیں، جنہیں فروخت کردیا جاتا ہے، وہ خود کو کس طریقے سے شہری ثابت کریں گی۔ملک میں کوئی بھی کام بغیر کسی تیاریوں کے کیا جارہا ہے۔پہلے نوٹ بندی لائی گئی اور کہا گیا کہ یہ ملک کے حق میں ہے۔اور اب کہاجارہا ہے کہ این آر سی کے ذریعہ مہاجرین کو باہر کیا جائے گا، جب کہ ضرورت یہ ہے کہ پہلے ثابت کیا جائے کہ ملک میں کون گھس بیٹھئے ہیں۔ حکومت کے پاس کوئی بھی مستحکم ثبوت نہیں ہے۔اجمیری گیٹ سے کونسلر راکیش کمارنے کہاکہ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر قانون ملک کے اور آئین کے خلاف ہے اور ہم اس کے پر زور مذمت کرتے ہیں۔ یہ قانون دیش کی امن و سلامتی اور قومی یکجہتی کو توڑنے کی سازش ہے۔ ملک کی ہندو سیکولر طاقتیں اس قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اس کی مخالفت پوری دنیا میں ہورہی ہے۔ہم اس کالے قانون کو واپس کرانے کے لیے جد وجہد کررہے ہیں۔ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا ہم احتجاجی مظاہرے کرتے رہیں گے۔گوہاٹی کی دیپانجنا نے کہاکہ جمہوریت میں حراستی کیمپ تعمیر کرائے جارہے ہیں۔ آسام ایک چھوٹی سی ریاست ہے ،جہاں آزاد ہندوستان اور قبل از آزادی لاکھوں بنگلہ دیشی ہندوآئے اور وہاں رہ رہے ہیں۔ سی اے اے ایک ایسا قانون ہے ،جس سے خود ہندو ہی متاثر ہوں گے اور ان کی تہذیب و ثقافت تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اگر باہر سے لوگ آئیں گے تو آسام کی تہذیب وثقافت باقی نہیں رہے گی۔ خود آسام کی اپنی شناخت ہی مٹ جائے گی۔یہ ہندو مسلم کی لڑائی نہیں ہے بلکہ آسام کے وجود کے تحفظ کی لڑائی ہے۔آج ذہنیت اس قدر گرگئی ہے کہ ادب کو بھی ہندو مسلم کے چشمے سے دیکھا جارہا ہے۔ اگر ان سب پر کوئی بولنے جائے تو انہیں سزا دی جارہی ہے اور انہیں ڈٹیشن سینٹر میں بھیجا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS