جمہوریت کا تحفظ حالات کا تقاضا

0

ابراہم لنکن نے کہا تھا، جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔ امریکہ نے اس نظام میں خود کو ڈھالنے کی جدوجہد کی مگر اس کے باوجود رنگ کی بنیاد پر امتیاز وہاں کی تلخ حقیقت ہے۔ ابراہم لنکن کے قتل کے 98 سال بعد مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے جب 28 اگست، 1963 کو نسلی امتیاز ختم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا، ’میرا ایک خواب ہے‘ تو اس وقت یہ سوال اٹھا تھا کہ ان کا خواب ادھورا کیوں ہے؟ 20 جنوری، 2009 کو براک اوباما امریکہ کے صدر بنے،سمجھا گیا کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب پورا ہو گیا مگر 17 جولائی، 2014 کو سیاہ فام ایرک گارنر کی سانسیں ان کے گلے میں گھونٹ دی گئیں تو یہ احساس ہوا کہ ایک سیاہ فام شخص کا صدر بن جانا امریکہ کے تمام سیاہ لوگوں کو مساوی حقوق دینے کے مترادف نہیں۔ 25 مئی، 2020 کو ایک اور سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی سانسیں بھی ان کے سینے میں گھونٹ دی گئیں اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس ایشو کو جس طرح آئندہ صدارتی انتخابات کے مدنظر دیکھا، اس سے یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوا کہ جمہوری نظام میں بے شک عوام کی حکومت ہوتی ہے مگر کس عوام کی؟ اکثریتی طبقہ اگر متحدہ طور پر ایک طرف ہو جائے اور حکمراں جماعت یا اس کے لیڈران اس کی خوشنودی کے لیے فیصلے لینے لگیں تو پھر اقلیتی طبقے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ یہ سوال آج امریکیوں کے لیے ہی اہم نہیں ہے، ہر اس ملک کے لوگوں کے لیے اہم ہے جہاں اقلیتی طبقے کو یہ احساس دلا دیا گیا ہے کہ آپ کی اہمیت ووٹ دینے کی حد تک ہے یا تب ہے جب اکثریتی طبقے کے لوگ آپ کے ساتھ ہوں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت دونوں ملکوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو جمہوری حقوق کو انسانی حقوق سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور جمہوریت کی بقا میں ہی انسانیت کی بقا تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے تمام مذموم بیانات اور اکثریتی طبقے کو صف بند کرنے کی جدوجہد کے باوجود شکست ڈونالڈ ٹرمپ کا مقدر بن گئی، جو بائیڈن ان پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں جمہوری نظام مستحکم ہو، اسی کے ساتھ دنیا بھر کے ملکوں میں اس نظام کو مستحکم بنانے پر توجہ دی جائے، جن ملکوں میں جمہوری نظام نہیں ہے، انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ عالمی برادری ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں بائیڈن نے 9 اور 10 دسمبر کو ایک ورچوئل سربراہ اجلاس منعقد کیا۔ اس میں ان ملکوں کو مدعو نہیں کیا گیا جہاں جمہوری نظام نہیں، البتہ بنگلہ دیش کو مدعو نہ کیا جانا اور پاکستان کو مدعو کیا جانا ناقابل فہم ہے۔ پاکستان نے اس میں شرکت نہیں کی، اس پر امریکہ کے ردعمل کے تعلق سے قیاس لگایا جا رہا ہے جبکہ امریکہ وقت کی مناسبت سے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ اسے ایک دہائی پہلے تک اویغور مسلمانوں کا اتنا خیال نہیں آتا تھا جتنا اب آتا ہے اور اس ایشو پر اس نے چین پر پابندی تک عائد کر دی ہے۔ اسے دیر آیددرست آید کے مترادف سمجھا جانا چاہیے، کیونکہ امریکہ پر اگر تنقید ہی کی جاتی رہے گی تو اویغور مسلمانوں کا پرسان حال کون ہوگا؟ امریکہ سے دس شکایتیں ہو سکتی ہیں لیکن یہ شکایت نہیں کہ اس کے جمہوری نظام نے اپنے سبھی لوگوں کو یکساں انسانی حقوق نہیں دیے۔ دوسری طرف یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ چین نے استحصال کو اپنے نظام کا حصہ بنا لیا ہے، ورنہ مذہب، ثقافت، لسانیات اور اظہار رائے کی آزادی چھیننے کے لیے اویغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ وہ دراز نہیں کرتا۔ یہی حالت میانمار میں ہے جہاں روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت عالمی لیڈروں کی انسانیت پسندی کی حقیقت آشکارا کرتی رہی ہے۔ شمالی کوریا کا غیر جمہوری نظام تو چین کی طرح ہی دنیا کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ایسی صورت میں جمہوریت پر امریکہ کا سربراہ اجلاس اہمیت کا حامل ہے۔ بائیڈن نے مدعو سربراہان مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ’حکومتوں کے سربراہان کے طور پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے شہریوں کی بات سنیں، جمہوریت کو مضبوط کریں اور ایسی اصلاحات کو آگے بڑھائیں جو شفاف اور جوابدہ طرز حکومت کو آگے بڑھائے۔‘ ان کی اس بات سے بھی عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ ’دنیا بھر میں مطلق العنان حکومتوں کے سر اٹھانے سے، جمہوریتوں کے لیے مستقبل کا راستہ کٹھن ہو گیا ہے۔‘اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پرہندوستان کثیر جہتی فارموں سمیت عالمی سطح پر جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے ۔‘امید کی جانی چاہیے کہ ہندوستان اور امریکہ مل کر جمہوری نظام پر کام کریں گے تو ان ملکوں کے لوگ بھی اس نظام سے مستفید ہو سکیں گے جو نہیں جانتے کہ جمہوریت کیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS