لوک سبھا ممبران کی تعداد میں اضافہ کی تجویز: یوگیندر یادو

0

یوگیندر یادو
پارلیمنٹ ہاؤس کی نئی عمارت میں لوک سبھا کی سیٹوں میں توسیع کرکے ان کی تعداد 888کردی گئی ہے۔ یہ بظاہر معمولی سی بات ایک سیاسی بھونچال پیدا کرسکتی ہے اور سیاسی حلقو ںمیں پہلے ہی اس بات پر قیاس لگایا جا رہا ہے کہ بی جے پی ابھی بھی اگلے حد بندی کمیشن میں پارلیمانی سیٹوں میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ صرف خام خیالی ہی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر وضع کی گئی پالیسی کے تحت ہورہا ہے ۔ یہ کوئی احمقانہ تجویز نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت ایک عملی اور اصولوں پر مبنی جواز موجود ہے مگر اگر ایسا ہوتا ہے تو اس توسیع کے اثرات دور تک پڑیں گے۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس میں پڑنے فی الحال کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہمیں جس قسم کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ان کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہے۔ فی الحال لوک سبھا کی 543سیٹیں ہیں (دو سیٹیں اینگلو انڈین افراد کے لیے محفوظ ہیں)آئین کے تحت لوک سبھا کی زیادہ سے زیادہ سیٹیں 552ہوسکتی ہیں۔ آئین میں اس بات کی بھی التزام ہے کہ کس طریقے سے ان سیٹوں کی حصے داری آبادی کے اعتبار سے ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے حالت میں جب مختلف ریاستو ںمیں آبادی کے شرح پیدائش میں تبدیلی آتی ہے تو کیا صورت حال پیش آسکتی ہیں۔ دستور کے مطابق ہر 10سال کے بعد ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر سیٹوں کی تعداد میں ترمیم تخفیف کا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ کس ریاست کو کتنی سیٹیں ملنی چاہیے۔ اسی طرح سے 1961اور 1971میں ایسا ہوا تھا مگر 1976میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ اس التزام کو ختم کردیا گیاتھا اور اب 2001تک اس کو برقرار رکھنے کی بات کہی گئی تھی بعد میں اس میں ایک اور ترمیم کرکے توسیع کی مدت بڑھا کر 2026کردیا گیاتھا۔
آخری ترمیم کے بعد یہ سمجھا گیا کہ توسیع پر یہ رکاوٹ برقرار رہے گی مگر بی جے پی نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اس بابت ترمیم پر عملی جامہ پہنانے پر غور کرے گی۔ لوک سبھا کی نشستوں میں اضافے دو طریقوں سے کیا جاسکتا ہے یا تو یہ کہ کچھ سیٹوں کی تعداد میں تخفیف کردی جائے اور جو سیٹیں بچتی ہیں ان کو دسری ریاستوں میں شامل کردیا جائے۔ دوسرا طریقہ ہے کہ ہم لوک سبھا میں ممبران کی تعداد کو بڑھا دیں۔ تاکہ کسی دوسری ریاست کی سیٹوں کو کم کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لہٰذا وہ ریاستیں جہاں پر آبادی میں زیادہ اضافہ ہے وہاں پر سیٹوں کی تعداد کو بڑھا دیا جائے۔ اگر آپ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں اور دوسرے متبادل کو استعمال کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کیرل کی سیٹیں 20ہی رہیں گی اورآپ کو لوک سبھا کی سیٹوں میں اضافہ کرکے ممبران کی تعداد کو 866کرنا ہوگا۔ شاید یہی منصوبہ ہے کہ نئی لوک سبھا کی عمارت میں جو اضافہ کیا گیا ہے شاید اسی وجہ سے کیا گیا ہے اور مبصرین اس پر نظر بنائے ہوئے ہیں۔
اب ہمیں اس منصوبے کے نتائج پر غور کرنا ہوگا۔ اگر ہم آبادی کے حساب سے ہر ریاست پر غور کریں تو 2026تک کیا حالات بنیں گے ۔ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس سے جنوبی ہندوستان کو نقصان پہنچے گا۔ سب سے زیادہ نقصان کیرل کو ہوگا۔ کیرل کو 8سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ دوسرے فارمولے میں لوک سبھا میں کیرل کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد کو 20سے گھٹا کر 12کرنا پڑے گا۔ جن دوسری ریاستوں کو اس فارمولے سے نقصان پہنچے گا ان میں تمل ناڈو کو 8سیٹوں کا، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کو مجموعی طور پر 8سیٹوں ، بنگال کو 4سیٹوں، اوڈیشہ کو 3سیٹوں، کرناٹک کو 2سیٹوں اور اسی طرح پنجاب ، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کو ایک ایک سیٹ گنوانی پڑے گی اور اس کا فائدہ شمالی ہندوستان کے ریاستو ںخاص طور پر ہندی بولنے والے ریاستوںکو ہوگا۔ اترپردیش کو 11، بہار کو 10اور راجستھان کو 6اور مدھیہ پردیش کو 4، جبکہ دہلی ، ہریانہ ، گجرات ، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کو ایک ایک ضافی ملے گی جبکہ مہاراشٹر ، آسام اور سابق ریاست جموں کشمیر میں اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یہی اس معاملے کی سب سے نازک کڑی ہے۔ اگر آپ آبادی کے تناسب سے یہ سیٹوں کو مختص کریں گے تو ہندی والی ریاستوں کو 33سیٹوں کا اضافہ ملے گا اور وہ بھی غیر ہندی ریاستوں کی قیمت پر۔ خیال رہے کہ وہ ریاستیں جن میں ہندی بولی جاتی ہیں وہ لوک سبھا کی 543سیٹوں میں سے 226سیٹوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ اب اس فارمولے کو نافذ کرنے کی صورت میں یہ تعداد بڑھ کر 259ہوجائے گی۔ یعنی کہ ہندی بولنے والی ریاستوں میں کامیابی حاصل کرکے تقریباً مکمل اکثریت حاصل کی جاسکتی ہے یا اکثریت کے قریب پہنچا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں ایوان کی تعداد کو بڑھا کر آپ اس کی ظاہری شکل وصورت کو بدل سکتے ہیں مگر اس کی اصل روح پر کوئی اثر واقع نہیں ہوگا۔ اگر ایوان زیریں کا حجم بڑھا یا جاتا ہے تو اس صورت میں کیرل کو بھی موجودہ 20سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا مگر اترپردیش کی سیٹوں کی تعداد بڑھ کر 143ہوجائے گی۔ جبکہ بہار کی سیٹوں کی تعداد 79 ہوجائے گی اور راجستھان کے 50ممبران لوک سبھا ہوجائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ علاقے جہاں ہندی بولی جاتی ہے وہی اکثریت کا فائدہ اٹھا سکیں گے اور اس کا فائدہ کس کو ہوگا اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اگر لوک سبھا کی سیٹیں 2011کی مردم شماری کے مطابق بڑھائی جاتی تو اس سے بی جے پی کو 17مزید سیٹیں مل سکتی تھیں یہ فائدہ اس کو علاقائی پارٹی کی قیمت پر ہوتا۔
جو تجاویز سامنے آرہی ہیں ان میں جواز ہے اور اگر ہم صرف اعلیٰ جمہوری اصولوں کے مد نظر رکھتے ہوئے بولیں تو یہ ایک شخص کو ایک ووٹ دینے کی قدر پر مبنی اصول ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیٹوں کا نظام اس اصول کی صریحاً خلاف ورزی ہے کیونکہ یوپی میں تین ملین آبادی پر ایک ممبر پارلیمنٹ آتا ہے جبکہ تمل ناڈو میں یہ تناسب 1.8ملین کا ہے۔ لہٰذا تمل ناڈو کے ایک شہری کی قدر یوپی کے شہری سے دوگنی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صورت حال خوشگوار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا آئین ہر 10سال کے بعد سیٹوں کی تعداد میں نظرثانی کی تجویز پیش کرتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہر جمہوریت پسند شخص کو شہریوں کی قدر میں تبدیلی کی تجویز کو قبول کرلینا چاہیے۔
لوک سبھا کی نشستوں کی دوبارہ تقسیم کے خلاف ایک او ر جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنا ان ریاستوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا جو خاندانی منصوبہ بندی کے معاملہ میں زیادہ سرگرم ہیں۔ پیدائش اور موت کی شرح میں موجودہ صورت حال اور تبدیلی خوشحالی اور خواندگی کی متقاضی ہے۔ یہی بات سماج کے کمزور طبقات ، ایس سی ، ایس ٹی، مسلمانوں اور غریبوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ یہ وہ طبقات ہیں جن میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔ بین الاقوامی پیمانوں کے برخلاف ہے، خاص طور پر ہندوستان جیسے ممالک ہیں۔
پھر بھی یہ تجویز اس لیے بھی مسترد کردینی چاہیے خاص طور پر آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے اصول وفاق کے اصول کے منافی بھی۔ اس معاملہ میں نقصان اٹھانے والے اور فائدے اٹھانے والے زبان ، جغرافیائی اقتصادی اور سیاسی خطوط پر ہی تقسیم ہورہے ہیں۔ اس لیے فائدہ ان لوگوں کو ہوگا جو شمالی ہندوستان میں رہتے ہیں اور جن کو نقصان ہوگا جنوب میں رہنے والے ہیں یا مشرقی خطوں میں رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ اگر فائدہ ہورہا ہے تو وہ ہندی بولنے والے ہیں۔ لوک سبھا کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد میں تبدیلی کا نقصان غیر ہندی بولنے والے بشمول اڑیا، بنگالی اور پنجابی بولنے والوں کو ہوگا۔ اس درجہ بندی میں وہ ریاستیں آتی ہیں جو اقتصادی ترقی کا انجن ہیں اور ان کو شکایت ہے کہ ٹیکس کی تقسیم میں ان کے ساتھ تفریق برتی جارہی ہے ۔ خاص طور پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعدیہ شکایت بڑھی ہے۔ اور جن ریاستوں کو سیٹوں کا فائدہ ہورہا ہے ان کو بی جے پی برخلاف کانگریس کا فرق ہے۔ جن ریاستوں کو نقصان ہوگا ان میں مقبولیت علاقائی پارٹیوں کو ہوتی ہے۔ اگر ہم کو آبادی کی بات کریں تو آبادی کی بنیاد پر ان ریاستوں کو فائدہ پہنچے گا جن میں ہندی زبان بولی جاتی ہے۔ یہ صورت حال اس غیر تحریر شدہ اصول کی خلاف ورزی ہے جو ملک کو باندھتی ہے۔ سیاست ایک اصول کی نفاذ کا نام نہیں ہے۔ یہ تمام اخلاقی جوازوں کو تمام اصولوں کے ساتھ جوڑنے اور مربوط کرنے پر مبنی ہے۔ اس معاملہ میں تمام جمہوری اصولوں کو وفاقی اصولوں پر فائدہ کیے جانے چاہئیں۔ آج ہم جس تاریخی مرحلے سے گزر رہے ہیں اس میں وفاقی اصولوں کو ضرور برقرار رکھا جانا چاہیے۔ اس اصول کو رد کرنا یا اس میں ابہام بھی ہندوستان کے اتحاد کو کمزور کرسکتا ہے۔ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے خاص طور پر جب ہم اس سیاسی مہم کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں جو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
مضمون نگار سوراج ابھیان کے صدر اور جے کسان آندولن کے بنیاد گزار ہیں ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS